امریکی عدالت نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف خاموش رہنے کے لیے دی گئی رقم کے مقدمے میں سزا سنانے کی تاریخ جمعے کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالتی حکم ٹرمپ کے لیے قانونی فتح ہے جو وائٹ ہاؤس واپس جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کو مئی میں 34 سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا جب جیوری اس نتیجے پر پہنچی کہ ٹرمپ نے 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل فحش فلموں کی ایک اداکارہ کے ساتھ مبینہ جنسی تعلق کو چھپانے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں ردوبدل کیا۔
استغاثہ نے دلیل دی کہ اس مبینہ تعلق کو چھپانے کا مقصد ان کی پہلی صدارتی مہم میں کامیابی تھا۔
ٹرمپ کو 26 نومبر کو سزا سنائی جانی تھی، لیکن انہوں نے جنوری میں صدارت سنبھالنے سے پہلے سزا دیے جانے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔
جج جوان مرچن نے اپنے حکم میں کہا کہ ’حکم دیا جاتا ہے کہ سزا مؤخر کرنے کی مشترکہ درخواست اس حد تک منظوری کی جاتی ہے کہ 26 نومبر، 2024 کی تاریخ کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔‘
ٹرمپ کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جس میں صدور کو سرکاری اقدامات پر وسیع قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین کے مقابلے میں چھ ججوں نے اکثریتی فیصلہ دیا جس کے تحت صدور کی جانب سے عہدے پر رہ کر کیے گئے متعدد سرکاری اقدامات وسیع استثنیٰ دیا گیا ہے۔
مقدمہ ختم کرنے کی درخواست
صدارتی الیکشن سے قبل ٹرمپ کے وکلا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیس خارج کرنے کی درخواست دائر کی جسے استغاثہ نے سختی سے مسترد کر دیا۔
جمعے کو جج نے ٹرمپ کو اجازت دی کہ وہ اپنی سزا کو ختم کروانے کی کوشش کریں جس کا مطلب ہے کہ مزید سماعتیں ہوں گی جو ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد مزید مؤخر ہو سکتی ہیں۔
مرچن نے اپنے حکم میں کہا کہ ’مدعا علیہ کی درخواست، جس میں کیس ختم کرنے کی درخواست دائر کرنے کی اجازت مانگی گئی ہے، منظور کی جاتی ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2020 میں انتخابی عمل میں مداخلت کے الگ کیس میں خصوصی وکیل جیک سمتھ نے کیس کی آخری تاریخیں ختم کرنے کی درخواست کی، جس سے کیس غیر معینہ مدت تک مؤخر ہو گیا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
یہ اقدام محکمہ انصاف کی دیرینہ پالیسی کے مطابق ہے جو عہدے پر موجود امریکی صدور پر مقدمہ چلانے سے روکتی ہے۔
مین ہیٹن کے پراسیکیوٹر نے پہلے عدالت کے ساتھ خط و کتابت میں تسلیم کیا کہ ’ایسے حالات ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔‘ انہوں نے جیوری کے فیصلے اور ٹرمپ کے انتخابی نتائج کے درمیان توازن قائم کرنے پر زور دیا۔
ٹرمپ کے سابق اٹارنی جنرل بل بار نے پہلے کہا تھا کہ نیویارک اور دیگر ریاستوں میں دائر مقدمات ’ظاہری طور پر سیاسی مقاصد کے بنائے گئے اور عوام کی عدالت میں وسیع پیمانے پر مسترد کر دیے گئے۔‘
ٹرمپ خاموشی اختیار کرنے کے لیے دی گئی رقم کے مقدمے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے بارہا کہہ چکے ہیں مقدمہ ’درست طور پر ختم کر دیا جانا چاہیے۔‘
نیویارک کے ریاستی پراسیکیوٹرز کے ذریعے دائر اس کیس کے علاوہ، ٹرمپ کو دو فعال وفاقی مقدمات کا بھی سامنا ہے جن میں ایک 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج پلٹانے کی کوشش اور دوسرا خفیہ دستاویزات کے غلط استعمال سے متعلق ہے جو انہوں نے عہدہ چھوڑنے کے بعد مبینہ طور پر کیا۔
تاہم، بطور صدر، وہ ان مقدمات کو ختم کرنے کے لیے مداخلت کر سکتے ہیں، اور جیک سمتھ جو دونوں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں، نے انہیں مبینہ طور پر نمٹانا شروع کر دیا ہے۔
ٹرمپ کے مقرر کردہ وفاقی جج پہلے ہی دستاویزات کے مقدمے کو مسترد کر چکے ہیں لیکن سمتھ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔