پاڑہ چنار کے رہائشی محمد ارشد کے لیے جمعرات دوسرے دنوں کی طرح ایک معمول جیسا دن تھا لیکن دوپہر کے قریب انہیں ایک اندوہناک خبر ملی کہ پشاور جانے والی بس، جس میں ان کے رشتہ دار سوار تھے، پر فائرنگ ہوئی ہے۔ محمد ارشد کا بس میں موجود اپنے بھتیجے سے موبائل فون کے ذریعے رابطہ ہوا تو انہیں دوسری طرف شدید فائرنگ کی آواز سنائی دی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ارشد یاد کرتے ہیں کہ ’موبائل میں فائرنگ کی آواز سن کر میں نے سوچا کہ اب ان (رشتہ داروں) کا زندہ بچنا ناممکن ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ بس میں ان کی بیٹی اور بھتیجے کے علاوہ دو بہنیں بس کے ذریعے پشاور جا رہے تھے اور ان کی بس اس بدقسمت کانوائے کا حصہ تھی۔
خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پولیس کے مطابق تقریباً 200 مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر نامعلوم مسلح افراد نے جمعرات کو اچانک فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین خواتین سمیت 39 افراد جان سے گئے اور 13 زخمی ہوئے۔
جان سے جانے والی خواتین میں محمد ارشد کے خاندان کی دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ ان کی بیٹی اور بھتیجا اس واقعے میں زخمی ہوئے۔
محمد ارشد کہتے ہیں: ’پہلے تو فون مل نہیں رہا تھا۔ بڑی مشکل سے کال ملی تو اس وقت تک میری بہنیں زندہ تھیں اور بچے بھی ٹھیک تھے۔
’بھتیجے سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ کانوائے بگن کے علاقے میں ہے اور آگے والی گاڑیوں پر فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس نے بتایا گاڑیاں رکی ہیں اور آگے پیچھے نہیں جا سکتیں۔‘
محمد ارشد کہتے ہیں کہ انہوں نے بس میں موجود اپنی بچی اور دوسرے رشتہ داروں کی خیریت دریافت تو انہیں بتایا گیا کہ ’ابھی سب خیریت سے ہیں۔‘
محمد ارشد تقریباً تین منٹ تک فائرنگ میں پھنسے اپنے بھتیجے سے موبال فون پر بات کرتے رہے، جس کے بعد کال بند ہو گئی۔
’کال کے دوران مجھے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور یہی سوچ رہا تھا کہ اب بچوں کا بچنا ممکن نہیں ہے۔‘
پہلی کال کٹ جانے کے بعد محمد ارشد ہر دو تین منٹ بعد بس میں موجود رشتہ داروں کے نمبروں پر کال کرتے رہے اور ہر مرتبہ دوسرے طرف سے یہی جواب ملتا کہ ’ہم پھنسے ہوئے ہیں۔‘
اس دوران محمد ارشد ضلعی انتظامیہ کے دفاتر بھی فون ملا رہے تھے تاکہ کانوائے پر حملے کی تفصیلات جان سکیں۔
’ڈپٹی کمشنر دفتر، ڈی پی او دفتر اور دیگر پولیس اہلکاروں سے رابطے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سب کے نمبر بند تھے۔‘
تاہم کچھ دیر بعد جب ان کا دوبارہ رابطہ بس میں موجود اپنے بھتیجے سے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ’ہماری بس بگن سے واپس پاڑہ چنار روانہ ہو گئی اور اس وقت وہ علیزئی گاؤں پہنچ گئے تھے۔‘
محمد ارشد کہتے ہیں: ’یہ جان کر میری جان میں جان آئی کہ بیٹئی، بھتیجا اور بہنیں خیریت سے ہیں۔‘
تاہم اس واقعے میں محمد ارشد کے ان کی دو رشتہ دار خواتین جان سے چلی گئیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانی سے بھری آنکھوں کے ساتھ محمد ارشد کا کہنا تھا: میں جس کرب سے میں گزرا ہوں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ آپ کے بچے ایک ایسی بس میں ہوں جس پر فائرنگ ہو رہی ہو تو کیا احساسات ہو سکتے ہیں۔‘
کانوائے پر حملہ کیسے ہوا؟
ضلع کرم کی انتظامیہ نے آٹھ نومبر کو ٹل پاڑہ چنار شاہراہ کو جزوی طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اور مسافر گاڑیوں سکیورٹی گاڑیوں کی حصار میں کانوائے کی شکل میں سفر کرنے کی اجازت دی تھی۔
تقریباً ایک ماہ قبل اپر کرم کے علاقے مقبل میں مسافر گاڑی پر کے واقعے میں 14 افراد جان ہوئے تھے، جس کے بعد ٹل پاڑہ چنار روڈ بند کر دی گئی تھی۔
شاہراہ کھولنے کے لیے سات نومبر کو طوری اور بنگش قبائل نے سڑک کھلوانے کے لیے پاڑہ چنار سے اسی سڑک پر پیدل مارچ کیا تھا، جس کے کے بعد کانوائے کی نقل و حرکت کے لیے گاڑیوں کو سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
جمعرات کو تقریباً 12 بجے اس شاہراہ پر ایک کانوائے پاڑہ چنار سے پشاور کی طرف جا رہا تھا جب نامعلوم افراد نے اسے نشانہ بنایا۔
ایک عینی شاہد محمد امین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کانوائے میں بسوں کے علاوہ دوسری گاڑیاں، فلائنگ کوچز اور موٹر کاریں بھی شامل تھیں۔
انہوں نے کہا کہ حملے کے بعد جب وہ وہاں پہنچے تو لاشیں گاڑیوں میں پڑی نظر آ رہی تھیں، جب کہ مقامی لوگ اور ریسکیو 1122 کے رضاکار زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔
شاہد امین نے بتایا، ’میری دو بچیاں اسی علاقے میں اپنے سکول میں پھنسی ہوئی تھیں اور تقریباً دو گھنٹوں کی کوششوں کے بعد بچوں کو سکول سے باحفاظت نکالا تھا۔‘