اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کے روز غزہ میں جاری ’روزانہ کی بربریت‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں ’سنگین ترین بین الاقوامی جرائم کی یاد دلانے والے اعمال‘ نظر آ رہے ہیں۔
سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی ایجنسی (اوچا) کی عبوری سربراہ جوئس مسویا نے غزہ میں شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے اور ’اپنے خاندان کے افراد کو قتل کیے جانے، جلائے جانے اور زندہ دفن کیے جانے کا مشاہدہ کرنے پر مجبور‘ ہونے کا ذکر کیا، جسے انہوں نے ’ملبے کا ویران علاقہ‘ قرار دیا۔
مسویا نے کہا، ’کیا امتیاز برتا گیا، اور کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں، اگر 70 فیصد سے زیادہ شہری رہائش گاہیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا نقصان کا شکار ہیں؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم سنگین ترین بین الاقوامی جرائم کی یاد دلانے والے اعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا، ’غزہ میں جو روزانہ کی بربریت ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔‘
مسویا کے یہ تبصرے شمالی غزہ میں اسرائیلی مہم کے دوران سامنے آئے، جسے انہوں نے ’گزشتہ سال کی دہشتوں کا شدید، انتہائی اور تیز تر ورژن‘ قرار دیا۔
سلامتی کونسل کا یہ اجلاس اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حالیہ رپورٹ پر مرکوز تھا، جس میں ’قحط کے فوری اور نمایاں امکان‘ کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔
علاقے میں امدادی سامان کی آمد کو باقاعدگی سے روکا جا رہا ہے اور بین الاقوامی غربت مخالف چیریٹی آکسفیم نے ہفتہ کے روز اسرائیل پر ’بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ترجمان سٹیفن ڈوجاریک کے مطابق، اکتوبر میں اس سال کی سب سے کم امداد غزہ پہنچی، یہاں تک کہ جب اسرائیل نے منگل کو امدادی ٹرکوں کے لیے ایک نئے سرحدی راستے کے کھلنے کا اعلان کیا۔
اکتوبر 2023 سے اسرائیلی جارحیت میں غزہ میں کم از کم 43,665 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر شہری ہیں۔ یہ اعداد و شمار حماس کے زیر انتظام علاقے کے صحت کے محکمے کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جنہیں اقوام متحدہ قابل اعتماد تسلیم کرتی ہے۔