آپ نے سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے پیجز دیکھے ہوں گے جن میں پنجاب کے دیہی علاقوں کی مقامی ثقافت انتہائی خوبصورت تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں پوسٹ کی جاتی ہے۔ یہ ٹرینڈ مقبول بنانے والے اولین نوجوانوں میں ایک نام حسن طلال ٹوانہ کا ہے۔
کھیت کھلیان، نہر، ندیا، جانور، پرندے، کسان اور شام کے رنگ میں ڈوبے دیہی پنجاب کے خاموش مناظر حسن ٹوانہ کی فوٹوگرافی میں کئی کہانیاں سناتے ہیں۔ ماضی جو بہت قریب آپ کا دل کرتا ہے تصویر دیکھتے ہوئے منظر میں سما جائیں۔ حسن کے فیس بک یا انسٹا گرام پر تھوڑی دیر تصاویر دیکھتے رہیں، اچانک آپ کا دل کرے گا سب کچھ چھوڑ کر اسی دنیا میں لوٹ جائیں جسے ہم نے ’ترقی‘ کے نام پر بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
حسن ٹوانہ نے ایک کھڑکی فراہم کی ہے جس میں جھانک کر ہم ماضی کی سیر کر سکتے ہیں، اپنے بچپن کو تلاش کر سکتے ہیں اور گزری ہوئی دنیا دوبارہ سے جی سکتے ہیں۔
حسن ٹوانہ کا تعلق سرگودھا کے گاؤں 65 شمالی سے ہے۔ فوٹوگرافی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی، بس شوق کی آگ میں جلتے جلتے کندن بن گئے۔ آج اپنے فن کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ کو فوٹوگرافی کی باریکیاں سمجھاتے اور ورکشاپس منعقد کرواتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حسن ٹوانہ اپنے اس سفر کے بارے میں بتایا کہ ’بچپن سے کسانوں کو دیکھتا آیا، وہ کس طرح مشکل حالات میں کام کرتے، ان کی زندگیاں اور محنت دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا راہ چلتے کلک کر لیتے ہیں یا باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے اور بار بار ایک جگہ پہ جاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’شاید کبھی میں اتنا لکی ہوا ہوں کہ پہلی مرتبہ کسی جگہ گیا اور فوراً تصویر بنا لی، اکثر جگہوں پر پانچ سات مرتبہ جانا پڑتا ہے اور رکنا پڑتا ہے۔ کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔‘
حسن ٹوانہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بہت پذیرائی ملی۔ ان کی تصاویر کی نمائش کئی سفارت خانے منعقد کروا چکے ہیں۔ انہوں نے پی آئی اے کا کلینڈر بھی اپنی تصاویر سے مزین کیا۔
سرحد پار کے پنجاب سے ملنے والی محبت پر حسن طلال ٹوانہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جب شروع کیا تو سب سے زیادہ رسپانس آیا ہی انڈین پنجاب کی سکھ برادری کی طرف سے، وہاں کے کرکٹرز، سنگرز، سیکٹرز اور دیگر لوگوں نے بہت پیار دیا۔ شاید میں یہاں سے زیادہ وہاں مقبول ہوں۔ اکثر لوگ رونے لگتے ہیں۔‘
ان کے پرستاروں میں عام آدمی سے لے کر سونم باجوہ اور شیکھر دھون جیسے انڈین سلیبریٹیز بھی شامل ہیں۔
فوٹوگرافی سے جیب خرچ کیسے پورا کرتے ہیں؟
’میری تصاویر کے پرنٹ لوگ خریدتے ہیں، ہوٹلوں میں لگاتے ہیں، زیادہ تر خریدار بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچپن میں جو چیزیں دیکھیں میں انہیں وہی دوبارہ سے تخلیق کر کے دکھاتا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’زندگی بہت جلد تبدیل ہو رہی ہے، ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سی چیزیں معدوم ہو گئیں، میں انہیں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ جو آلات ہمارے کسانوں کی زندگیوں میں پچھلے سو سال سے چلے آئے ہیں، اسے اچانک پھینک دینا کہ اب نئی مشین آ گئی ایک فنکار کو تکلیف دیتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کیمرے کی آنکھ سے وہ سب منظر محفوظ کروں جن کے مٹنے کا خدشہ ہو۔‘
حسن نے معدوم ہوتے مناظر ہی قید نہیں کیے بلکہ وہ سرگرمیاں جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں انہیں از سر نو تخلیق کیا اور پھر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیا۔ مثال کے طور پر درختوں سے پتنگ اتارتے بچے، یا مختلف روایتی کھیلوں میں محو بچوں کی منظر کشی۔
حسن ٹوانہ کی فوٹوگرافی کی کائنات وسیع، جذباتی اور کیفیت سے بھری ہے۔ ان کی وال وزٹ کرنا ایک تھراپی سیشن لینے جیسا ہے، ایسا سکون کہ واپس آنے کو جی نہیں کرتا۔