ایبٹ آباد کے سرحدی گاؤں ترچھ سے تعلق رکھنے والے 96 سالہ سردار فرید خان کو آج بھی وہ دن یاد ہیں، جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر میں خوفناک جنگ کی فضا قائم ہوئی تھی۔
سردار فرید خان نے اس سرحدی علاقے میں رہ کر کشمیر کی جدو جہد اور کشیدگی کو قریب سے دیکھا، جو بعدازاں خطے کی تاریخ کا ایک اہم باب بنا۔
سردار فرید خان نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اکتوبر 1947 میں مظفرآباد پر قبائلی لشکر کے قبضے کے بعد مقامی مسلمانوں میں جوش و خروش کی ایک نئی لہر ابھری۔
’انہوں نے سکھ اور ہندو آبادیوں کو نکال کر اپنے دیہاتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ فرید کے والد علی اکبر خان اور دیگر مقامی رہنما جن میں سردار یعقوب خان آف باسیاں بھی شامل تھے اس تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔‘
سردار فرید خان بتاتے ہیں کہ جب بھارت کے صوبہ بہار سے مسلمان مہاجرین کی پہلی ٹرین لاہور پہنچی تو مقامی مسلمانوں نے ان سے حال احوال جاننے کی کوشش کی۔
’ٹرین میں موجود مہاجرین نے بتایا کہ کس طرح ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور ماؤں کے سامنے بچوں کی جانیں لی گئیں۔ یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور پھر فسادات پھوٹ پڑے۔‘
فرید کے مطابق: ’اس واقعے نے ان کے علاقے کے لوگوں میں غم اور غصہ پیدا کیا اور انہوں نے اپنے علاقے کے ہندوؤں اور سکھوں کو یہاں سے نکل جانے کا کہا۔‘
سردار فرید خان نے خصوصاً پھاگڑی کے مقام پر ہونے والی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب مسلمانوں اور سکھ ہندو آبادیوں کے درمیان جنگ چھڑی تو ابتدائی دو دنوں کے دوران مسلمانوں کو واضح کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس صورتحال پر ان کے والد علی اکبر خان ایک دوسرے مسلمان رہنما سردار یعقوب خان کے پاس گئے اور انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔
’سردار یعقوب خان 60 مجاہدین کے ہمراہ سردار فرید خان کے گاؤں پہنچے، دریا عبور کیا اور پھاگڑی میں موجود مورچوں پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے دوران شدید لڑائی کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں سکھ اور ہندو اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں سرینگر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے۔‘
جنگ کے باوجود سردار علی اکبر خان نے انسانیت کی ایک مثال بھی قائم کی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سردار فرید خان کو یاد ہے کہ ایک ہندو جو جنگ کے دوران ان کے گاؤں سے گزر رہا تھا کو لوگوں نے پکڑ لیا اور مارنے کا ارادہ کیا۔ ’مگر فرید کے والد نے اسے بچا کر رخصت کیا اور بس اتنا کہا کہ پاکستان میں اس کی حفاظت نہیں ہو سکتی اس لیے بہتر ہے کہ وہ بھارت چلا جائے۔‘
فرید خان نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے گاؤں کے ہندو اور سکھ پڑوسیوں کے ساتھ ماضی میں دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔
’ہماری روزمرہ کی زندگی میں وہ ہمیں السلام علیکم کہتے اور ہم انہیں نمستے کے ساتھ جواب دیتے تھے۔ مگر تقسیم کی ہولناک کہانیوں نے سب کچھ بدل دیا تھا۔‘
پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو کوہالہ پل، جو آزاد کشمیر، پنجاب اور ہزارہ کو جوڑتا تھا، اس وقت ایک سٹریٹیجک مقام بن گیا۔
سردار فرید خان نے بتایا کہ بھارتی طیارے روزانہ کوہالہ پل کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے مگر خدا کے فضل سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان حملوں کا جواب مظفرآباد کے دومیل علاقے سے گولہ باری کی صورت میں دیا گیا جس کے گولے پٹن کے مقام پر پھٹتے، جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔