ڈونلڈ ٹرمپ سوئنگ ریاستوں میں حیران کن نتائج دے کر امریکہ کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ جب سے وہ منتخب ہوئے پاکستان میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ کیا وہ ’اپنے دوست‘ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے یا نہیں؟ تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ٹرمپ کے منتخب ہونے کی صورت میں عمران خان نومبر میں ہی رہا ہو جائیں گے۔
اب اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا اور اس بارے میں کوئی بھی تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات کیا ہوں گی۔
وہ پہلے امریکہ کے گھمبیر اندرونی مسائل اور معیشت پر توجہ دیں جس کی وجہ سے انہیں کملا ہیرس کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ خارجہ پالیسی میں بھی اینٹی وار بیانئے کے تحت ان کی اولین ترجیح یوکرین اور مشرق وسطیٰ (اسرائیل کی شرائط پر ہی) میں جنگ رکوانا ہو گی۔
ساتھ ہی وہ چین کو کنٹین کرنے کی جو بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی سے زیادہ اپنے سخت گیر مؤقف پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے چینی مصوناعات پر 60 فیصد اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کر رکھا ہے، جس پر عمل کرنا مشکل اس لیے ہو گا کہ اس کا براہ راست اثر امریکہ میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور انفلیشن کی صورت میں ہو گا۔
اب اگر جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو امریکی پالیسی انڈو سپیسیفک ہے۔ امریکہ چین کو کنٹین رکھنے اور انڈیا کی بطور سٹریٹجک پارٹنر رکھنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔
پاکستان کی بات کی جائے تو افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کا پاکستان پر انحصار ختم ہو چکا ہے اور دونوں ممالک میں اسی قسم کے دوستانہ تعلقات ہیں، جو ایک سپر پاور آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک اور ایٹمی طاقت سے رکھنا چاہے گا۔ البتہ اگر ایران کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی بڑھتی ہے یا ایران پر براہ راست حملہ ہوتا ہے، جس کے امکانات بہت ہی کم ہیں تو ایسے میں پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت بڑھ سکتی ہے۔
ایسے میں عمران خان کی رہائی ڈونلڈ ٹرمپ کی لسٹ پر ہونے کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں انہیں انتہائی گرم جوشی سے ملے تھے۔ تو عرض یہ ہے کہ اس وقت امریکی افغانستان سے پرامن انخلا چاہ رہے تھے اور وہ پاکستان کے بغیر ناممکن تھا۔ بالفاظ دیگر اس وقت عمران خان کا نہیں ایک پاکستانی وزیراعظم سے گرمجوش مصافحہ اور ملاقات کی گئی تھی۔
اب اس دلیل پر آتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت غیر متوقع ہے اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ اور کر سکتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ وہ اگر کسی وقت کسی سوال کے جواب میں عمران خان کے بارے میں کوئی لائن کہہ دیں یا کوئی ایک آدھ ٹویٹ کر بھی دیں تو ایک اعلیٰ عہدیدار کے بقول ’پاکستان نہ تو اس بارے میں کسی کی سننے کے موڈ میں ہے، نہ ہی ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔‘
مسلم فار ٹرمپ کے چیئرمین اور پاکستانی نژاد ریپبلیکن بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کسی آزاد ملک کی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتا۔ عمران خان ایک باقاعدہ کنوکٹ ہیں اگر انہیں کسی نے آزاد کرنا ہے تو وہ پاکستان کی عدالتوں نے ہی کرنا ہے۔ یہ تو ہوئی ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی کہانی۔
اب بات کریں گے ایک اور شوشے کی جو قومی حکومت کے نام پر چھوڑا گیا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ اکتوبر میں منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے ہی 2024کے انتخابات کالعدم قرار دے دیں گے، حکومت گھر چلی جائے گی اور عمران خان رہا ہو جائیں گے۔
ہم منطق کی بنیاد پر کہتے رہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا حکومت بھی یہیں رہے گی اور 26 ویں آئینی ترمیم بھی منظور ہو گی۔ ترمیم منظور ہونے سے کئی دن پہلے انہی سطور میں تحریر کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن دل ہی دل میں مان چکے ہیں اب اس کا اعلان کب کرتے ہیں یہ ان کی مرضی۔
قومی حکومت بھی ایسا ہی شوشہ ہے جیسا اکتوبر میں منصور علی شاہ نے چیف جسٹس بن کر انتخابات کالعدم قرار دینا تھا۔ موجودہ سیٹ اسی طرح چلتا رہے گا نہ کوئی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ آئے گا نہ کوئی مڈٹرم انتخابات ہوں گے۔ البتہ کابینہ میں اضافہ اور ری شفلنگ عنقریب ہو گی۔ اعلیٰ عہدیدار کے بقول ’پاکستان میں اب جو بھی حکومت آئے گی وہ بذریعہ انتخابات ہی آئے گی اور اگلے انتخابات کی تاریخ ان 2029 ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔