fbpx
خبریں

’ہم اپنے ہی زہر میں پھنس گئے‘: لاہور کے بعد پشاور بھی سموگ کی زد میں/ اردو ورثہ

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی گلیوں میں سموگ کے باعث شہری شدید مشکل میں پڑ گئے ہیں جہاں زہریلی فضا سے آنکھوں اور گلے میں جلن کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔

جبکہ بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو اس زہریلی فضا سے بچاؤ کے لیے ایئر پیوریفائی جیسے آلات استعمال کر سکتے ہیں۔

لاہور اور ملتان گذشتہ دو ہفتوں سے شدید سموگ کی لپیٹ میں ہیں جبکہ اب اس فہرست میں پشاور اور اسلام آباد بھی شامل ہو گئے ہیں۔

ایئر کوالٹی انڈیکس پر پیر 11 نومبر کو بھی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 556 تھا جبکہ پشاور بھی کچھ زیادہ پیچھے نہیں اور خطرناک حد پہنچ چکا ہے۔ پشاور کا ایئر کوالٹی انڈیکس پیر کو 507 رہا ہے۔

حکومت پنجاب نے لاہور اور مختلف اضلاع میں سموگ کی تشویش ناک صورت حال کے باعث باغوں، عجائب گھروں اور کھیل کے میدانوں میں شہریوں کے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

محکمہ تحفظ ماحولیات کے مطابق یہ پابندی جڑانوالہ، لاہور، ملتان اور فیصل آباد ڈویژنز میں 17 نومبر تک لاگو رہے گی۔

بین الاقوامی ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق 300 یا اس سے زیادہ کی قدر کو ’ خطرناک‘ تصور کیا جاتا ہے، اور پاکستان میں یہ سطح  اکثر ایک ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔

ملتان میں، جو لاہور سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور جس کی آبادی بھی لاکھوں میں ہے، وہاں پچھلے ہفتے ایئر کوالٹی انڈیکس 2 ہزار کراس کر چکا ہے، جو ناقابل یقین حد تک ایک غیر معمولی سطح ہے۔

38 سالہ پرائمری اسکول ٹیچر رافیہ اقبال نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچے مسلسل کھانسی کر رہے ہیں، انہیں مستقل الرجی ہو رہی ہے۔ اور زیادہ تر بچے بیمار ہو رہے تھے۔‘

ان کے شوہر محمد صفدر جو اشتہارات کے شعبے سے وابستہ ہیں نے کہا کہ آلودگی کی سطح ’روزمرہ زندگی کو ناممکن بنا رہی ہے،ہم کہیں جا نہیں سکتے، باہر نہیں نکل سکتے، کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘

سموگ سے بچاو کے لیے استعمال کیے جانا والا ایئر پیوریفائر بھی لوگوں کی قوت خرید سے زیادہ ہے، ایک ایئر پیوریفائر کی قیمت کم از کم 90 ڈالر سے شروع ہوتی ہے، اور اس میں ہر چند ماہ بعد فلٹرز کو تبدیل کرنے کا اضافی خرچ بھی شامل ہے، جو اتنی شدید آلودگی میں ایک بڑی مشکل ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رافیہ اقبال اور شوہر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ ایئر پیوریفائر کا استعمال نہیں کررہے بلکہ بچوں کو گھر میں ایک کمرے میں محدود کیا ہوا ہے۔‘

عالمی ادارے صحت کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی فالج، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کے کینسر اور دیگر سانس کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اور یہ خاص طور پر بچوں، شیر خوار بچوں اور بزرگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

پچھلے سال پنجاب حکومت کی جانب سے سموگ پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا تھا اور اس سال ٹینکوں سے سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا مگر اس سے کوئی نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس ایمرجنسی صورتحال کو مدنظر رکھنتے ہوئے پنجاب کے مختلف اضلاع میں تفریحی مقامات پر 17 نومبر تک پابندی عائد کی گئی ہے۔ 

اے ایف پی کے مطابق صوبے بھر میں مریضوں کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں خصوصی سموگ کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں، اور صرف منگل کے دن لاہور میں 900 افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر قرۃ العین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس سال سموگ پچھلے سالوں سے کہیں زیادہ ہے اور اسی لیے متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کئی مریض سانس لینے میں دشواری، کھانسی اور سرخ آنکھوں کے ساتھ آتے ہیں، جن میں اکثر بزرگ، بچے اور وہ نوجوان شامل ہیں جو موٹرسائیکل پر زہریلی ہوا میں سفر کرتے ہیں۔

سموگ سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ہم  لوگوں کو باہر نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں اور اگر جانا ضروری ہو تو ماسک پہن کر ہی نکلیں۔

جبکہ بچوں کے لیے ان کا مشورہ تھا کہ بچے خاص طور پر آنکھوں کو ہاتھوں سے نہ چھوئیں۔

ڈاکٹر عالیہ حیدر، جو کہ ایک ماحولیاتی کارکن بھی ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ مریضوں کے لیے آگاہی مہم چلائی جائیں کیونکہ اکثر لوگ سموگ کے خطرات سے آگاہ نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ غریب علاقوں کے بچے سب سے پہلے متاثر ہو رہے کیونکہ وہ سال بھر مختلف قسم کی آلودگیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے ہی زہر میں پھنس چکے ہیں، یہ شہر پر گیس کا بادل کی طرح ہے۔‘




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے