پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موسم کا ’ریورس گئیر‘ چل رہا ہے جس سے نہ صرف اس خطے میں فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، بلکہ وہاں کے رہائشیوں کا سالانہ ٹائم شیڈول بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پچھلے برس اکتوبر میں برف کی چادر لیکن اب نومبر آ گیا مگر برف نہ آئی۔ نومبر شروع ہو چکا ہے مگر وادی نیلم، جہلم سمیت کشمیر کے دیگر علاقوں میں برف پڑ رہی نہ ہی پت جھڑ مکمل ہوا ہے۔
ان علاقوں میں بارشیں نہ ہونے اور موسم کے وقت پر نہ بدلنے سے مقامی سطح پر کاشت کی جانے والی ’موٹھ کی دال‘ یعنی سرخ لوبیا بھی پیداواری سطح سے بہت کم ہوئی ہے، لیکن ایسا کیوں ہے؟
انڈیپینڈنٹ اردو نے اس پر ماہر موسمیات ڈاکٹر نعیم سے بات کی ہے، جو ماحولیاتی سائنسز میں پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں اور 25 سال سے کشمیر کے ماحول اور جنگلی حیات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر نعیم کا موسم کی اس سست روی پر کہنا ہے کہ ’موسم کے انداز تبدیل ہونے سے موسمیاتی تبدیلی جنم لیتی ہے۔
’یہ ایک دو دن کی تبدیلی نہیں ہے، موسم ایک دم تبدیل نہیں ہوتا اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جنہیں ہم نظر انداز کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کشمیر میں جنگلات کی کٹائی بہت زیادہ ہے، بلندی پر بےہنگم تعمیرات، پہاڑوں پر سڑکوں کا بننا، وادیوں میں بڑی تعداد میں گاڑیوں کا داخلہ، جنگلات میں لگنے والی آگ اور تمام علاقوں میں ’رش ٹورزم‘ یعنی بے ہنگم سیاحت، یہ سب ایسے عوامل ہیں جن سے کشمیر کا موسم تبدیل ہو رہا ہے۔‘
نعیم کا کہنا ہے کہ ’موسم کی تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے برس اکتوبر میں برف پڑ چکی تھی، لیکن اس بار نومبر تک برف باری نہیں ہوئی، بلکہ ابھی تک دن کے اوقات میں گرمی پڑ رہی ہے۔
’کشمیر میں اکتوبر نومبر میں خزان کا موسم آتا تھا، درخت پیلے پڑ جاتے تھے اور ان کے پتے گر جاتے تھے لیکن اس بار نومبر شروع ہے اور درخت ابھی تک ہرے بھرے ہیں ایسا لگتا ہے بہار کا موسم چل رہا ہے۔‘
’یہی ماحولیاتی تبدیلی ہے، جس کے اثرات براہ راست یہاں کے رہنے والوں پر ہو رہے ہیں اور بہت برے ہو رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر نعیم کا کہنا تھا: ’ان لوگوں کا انحصار مال مویشیوں اور موسمی فصلوں پر ہوتا ہے، اور یہ موسم ان دونوں چیزوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔ فصلوں کی بیجائی مارچ کی بجائے جون تک چلی گئی ہے۔ وقت کے مختصر دورانیے کی وجہ سے فصلیں نہیں پکتیں اور ان میں کیڑا لگتا ہے۔
’اس وجہ سے ان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، اب فیصلہ سازوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے موسمیاتی تبدیلی پر پالیسی بنائیں اور اگر بنی ہوئی ہے تو اسے نافذ کریں، ورنہ یہ ماحول تباہ ہو جائے گا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وادی نیلم رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
اس ضلعے میں جنگلات بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس علاقے میں وہ پہاڑی سلسلے اور گلیشیئرز پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اسے میٹھے پانیوں کا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے، تاہم موسم اس علاقے پر بھی بری طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے۔
کھیتی باڑی سے منسلک وادی نیلم کے رہائشی امیر الدین مغل کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کا تفصیلاً مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
’وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں اس مہینے میں پوری طرح سے خزاں آ جاتی تھی اور درختوں کے پتے گرنا شروع ہو جاتے تھے تاہم اس بار وادی نیلم میں خزاں نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’دوسرا یہ کہ برف باری کے اوقات میں بہت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ اس وقت وادی نیلم میں برف باری شروع ہوتی تھی لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔
’گرمیوں کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جبکہ دو موسم، خزاں اور بہار تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ چند سال پیچھے جائیں تو اس موسم میں اچھی خاصی سردی ہوتی تھی لیکن اب یہ عالم ہے کہ نومبر میں دھوپ برداشت نہیں ہو رہی۔‘
’فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں اس موسم کی وجہ سے شدید کمی آئی ہے اور وادی نیلم میں پھل پکنے کی بجائے گل سڑ رہے ہیں۔ موسم کے اس رویورس گئیر کی وجہ سے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں سالانہ ٹائم شیڈول تباہ ہو چکا ہے، اور انہیں سبزیوں اور غلے کی متوقع پیدوار حاصل نہیں ہو رہی۔‘