fbpx
خبریں

عجیب قانونی سقم: انڈیا سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی ہٹانے پر مجبور/ اردو ورثہ

انڈیا میں مصنف سلمان رشدی کی کتاب ’دی سیٹینک ورسز‘ کی درآمد پر عائد پابندی دہلی ہائی کورٹ نے ایک غیر معمولی صورت حال کی وجہ سے ختم کر دی ہے، کیونکہ اس پابندی کا اصل نوٹیفکیشن مل نہیں رہا۔

1988 میں شائع ہونے والے افسانوی ناول، جس میں اچھائی اور برائی کے پرانے موضوعات کا احاطہ کیا گیا اور جس میں فرشتے جبرائیل اور پیغمبر اسلام محمد ﷺ سمیت مذہبی شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے، مسلم قارئین میں تنازع کا شکار ہو گیا، جنہوں نے اسے توہین آمیز قرار دیا ہے۔

اس کتاب پر انڈیا، جنوبی افریقہ اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اس کتاب کے اقتباسات اور رشدی کا انٹرویو ستمبر 1988 میں ایک انڈین میگزین میں شائع ہوا، جس کے بعد انڈین سیاست دان سید شہاب الدین اور خورشید عالم خان نے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔

پانچ اکتوبر 1988 کو انڈین حکومت نے وزارت خزانہ کے کسٹم آرڈر کے ذریعے ’دی سیٹینک ورسز‘ کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فروری 1989 میں ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے سلمان رشدی اور ان کے پبلشرز کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے اور کتاب کے جاپانی مترجم ہیتوشی اگاراشی کو چاقو مار کر قتل کر دیا گیا، جس کے بعد سلمان رشدی کو مجبوراً ایک دہائی تک لندن میں چھپنا پڑا۔

اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈین کسٹم حکام کی جانب سے 1988 میں کتاب کی درآمد پر عائد پابندی کا نوٹیفکیشن نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے عدالت نے اس درخواست کو نمٹا دیا، جس میں نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سینٹرل بورڈ آف انڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی) کے خلاف درخواست گزار سندیپن خان نے 2019 میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی، جس میں کسٹم ایکٹ 1962 کے تحت درآمد پر پابندی لگانے والے نوٹیفکیشن کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سندیپن خان براہ راست پبلشر یا متبادل ذرائع سے کتاب درآمد کرنے کی اجازت مانگ رہے تھے۔

سندیپن نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت تمام ریاستی حکومتوں اور وفاقی علاقوں کو یہ پیغام دے کہ کتاب کی درآمد پر پابندی انڈین آئین کی حدود سے باہر یا ’اختیارات سے ماورا‘ ہے۔

درخواست گزار نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے 2017 میں انڈیا کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں نوٹیفکیشن کی کاپی کی درخواست کی گئی تھی اور انہیں ملنے والے جواب میں کہا گیا کہ نوٹیفکیشن والی متعلقہ فائل کا سراغ نہیں لگایا جاسکا، لہذا اسے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

سندیپن خان کے وکیل نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ نوٹیفکیشن کسی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہے اور اس کا سراغ لگانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

درخواست کی سماعت کئی بار ملتوی کی گئی اور سی بی آئی سی نے عدالت سے نوٹیفکیشن کا پتہ لگانے کے لیے مزید وقت دینے کی کئی بار درخواست کی۔

نومبر 2022 میں عدالت نے کہا تھا کہ سندیپن خان ’مذکورہ فائل کا سراغ لگانے کی کوشش کرنے کا آخری موقع چاہتے ہیں‘ اور مدعا علیہ کو ایک حلف نامہ جمع کروانا ہوگا، اگر قانونی نوٹیفکیشن گم ہوگئے یا غلط جگہ پر رکھ دیے گئے ہوں تو کیا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

کئی عدالتی تاریخوں کے بعد، آخرکار پانچ نومبر کے ایک حکم میں، دہلی کی عدالت نے سندیپن خان کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا: ’ان حالات کی روشنی میں، ہمارے پاس یہ فرض کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ایسا کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے، لہٰذا ہم اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ نہیں لے سکتے اور رٹ پٹیشن کو غیر مؤثر سمجھتے ہوئے اسے نمٹا دیتے ہیں ۔‘

اس حکم کی بنیاد پر عدالت نے کہا کہ چونکہ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے، لہذا سندیپن خان کو ’کتاب کے متعلق وہ تمام اقدامات کرنے کا حق ہے، جو قانونی دائرے میں موجود ہیں۔‘




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے