سعودی عرب کے صوبہ مدینہ میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک نخلستان کے نیچے قدیم کانسی دور کے قصبے کے آثار دریافت کیے ہیں، جو 2400 قبل مسیح سے آہستہ آہستہ آباد ہونا شروع ہوا تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ قدیم قصبہ، جسے النطاح کام نام دیا گیا ہے، خانہ بدوش مویشی پالنے کے طرز زندگی سے پیچیدہ شہری آبادی میں ڈھل رہا تھا۔
اس بستی کے آثار خیبر کے دیواروں سے گھرے ہوئے نخلستان کے نیچے چھپے ہوئے ہیں، جو جزیرہ نما عرب کے شمال مغرب میں ایک زرخیز قطعہ اراضی ہے، جس کے گرد صحرا پھیلا ہوا ہے۔ شمالی عرب میں شہری ترقی کا مطالعہ مشکل رہا ہے، کیونکہ یہاں محفوظ رہنے والے آثار قدیمہ کا فقدان ہے، جبکہ شام اور میسوپوٹیمیا جیسے علاقوں کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھ لیا گیا ہے۔
تاہم شمالی عرب میں تازہ کھدائیوں نے اس خطے میں شہری زندگی کے ابتدائی مراحل پر نئی روشنی ڈالی ہے۔ النطاح نامی قدیم قصبے میں تقریباً پانچ سو لوگ رہتے تھے۔ یہ قصبہ جو ڈیڑھ ہیکٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا اور اس میں ایک مرکزی اور اس کے قریب ایک رہائشی علاقہ تھا جسے حفاظتی دیواروں نے گھیر رکھا تھا۔ تحقیق پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہوئی۔
تحقیق کرنے والوں نے قدیم مقام پر ایسی عمارتوں کے بنیادیں دریافت کی ہیں جو کم از کم ایک یا دو منزلہ گھروں کی تعمیر کے لیے کافی مضبوط تھیں۔ محققین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ آگے چل کر تقریباً ایک ہزار سال بعد شہر کو خالی کر دیا گیا۔
محققین نے شہر کے قریب قبروں کے آثار بھی دریافت کیے ہیں جس سے قبرستان کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
ان قبروں میں دھاتی ہتھیار، مثال کے طور پر کلہاڑیوں اور خنجروں کے ساتھ ساتھ عقیق جیسے پتھر پائے گئے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ قدیم معاشرہ بہت پہلے سے کافی ترقی یافتہ تھا۔
تدفین کی رسومات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کانسی کے دور کی اس آبادی میں سماجی درجہ بندی پائی جاتی تھی۔
آثار قدیمہ کے مطابق النطاح شمالی عرب کے دیگر ہم عصر مقامات سے مشابہ ہے۔
تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ مقامات موجودہ دور کے مغربی ایشیا میں مشرقی بحیرہ روم کے علاقے اور میسوپوٹیمیا کے مقابلے میں چھوٹے اور کم سماجی و سیاسی پیچیدگی کے حامل تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق کے مطابق النطاح ’کم شہری آبادی‘ کی حالت کو ظاہر کرتا ہے اور خانہ بدوش گلہ بانی اور پیچیدہ شہری آبادکاری کے درمیان تبدیلی کا دور موجود ہے۔
محققین نے لکھا کہ ’قریبی نخلستانی مراکز کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ شمال مغربی عرب کانسی کے دور میں زیادہ تر گلہ بانی کرنے والے خانہ بدوشوں کے گروہوں کے زیر اثر تھا اور پہلے ہی طویل فاصلے کے تجارتی نیٹ ورک میں شامل ہو چکا تھا۔‘
یہ دریافت یہ ظاہر کرتی ہے کہ شمالی عرب ممکنہ طور پر کانسی کے وسطی دور کی ابتدا میں اسی طرح کے قلعے کی شکل کے چھوٹے قصبوں سے بھرا ہوا تھا جبکہ دوسرے علاقے زیادہ تیزی سے شہروں میں تبدیل ہو رہے تھے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان قصبوں نے ’بخور (خوشبودار مادہ) کے راستے‘ کی بنیادیں رکھ سکتے ہیں جس کے ذریعے مصالحہ جات، لوبان اور خوشبودار گوند کی جنوبی عرب سے بحیرہ روم تک تجارت کی جاتی تھی۔
محققین نے لکھا: ’شمال مغربی عرب میں پہلی بار کانسی کے دور کا چھوٹا قصبہ (2400-1300 قبل مسیح) دریافت ہوا ہے جو قلعوں کے وسیع نیٹ ورک سے جڑا ہوا ہے اور مقامی طور پر شہروں کے وجود میں آنے کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔‘