پاکستان کی پارلیمان میں پیر کو اجلاس کے لیے جاری کیے جانے والے ایجنڈے کے مطابق رکن قومی اسمبلی سحر کامران توجہ دلاؤ نوٹس کے تحت عالمی درجہ بندی میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے گرتے ہوئے معیار کا معاملہ اٹھائیں گی نیز پی آئی اے کی جانب سے حالیہ گراؤنڈ طیاروں کا معاملہ بھی اٹھے گا جسے رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران توجہ دلاؤ نوٹس کے تحت اٹھائیں گی۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے معیار کی بحث ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے انڈیکس کو سامنے رکھ کر کی جائے گی جس کے مطابق پاکستان دنیا کے 142 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 142 ممالک میں سے پاکستان کی درجہ بندی 129 ویں نمبر پر ہے جب کہ 2023 میں اس انڈیکس میں پاکستان کا درجہ 142 ممالک میں 130واں تھا، رواں سال ایک درجے کی بہتری کے باوجود خطے میں دیگر چھ ممالک میں سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے ستمبر 2024 میں آئندہ چند ماہ تک فلائٹ آپریشنز جاری رکھنے کے لیے فنڈز کے حصول میں دشواری کے سبب کچھ طیاروں کو ’عارضی طور پر‘ گراؤنڈ کر دیا تھا، اور یقین دہانی کرائی تھی کہ ادائیگیاں کیے جانے کے بعد وہ واپس اڑان بھریں گے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستمبر 2024 میں ہی وزارت ہوا بازی نے ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو بتایا تھا کہ پی آئی اے اس وقت فنڈز کے شدید بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے پر قرض دہندگان، طیارے لیز پر دینے والوں، ایندھن فراہم کرنے والوں، بیمہ کنندگان، بین الاقوامی اور ڈومیسٹک ایئرپورٹ آپریٹرز اور حتیٰ کہ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کے بقایاجات واجب الادا ہیں۔
نتیجتاً پی آئی اے نے اپنے 13 لیز پر لیے گئے طیاروں میں سے پانچ کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ مزید چار طیاروں کا معاملہ بھی زیر غور تھا۔ وزارت ہوابازی نے 23 ارب روپے کے فوری کیش کی فراہمی، ملکی ایجنسیوں کو ڈیوٹی، ٹیکس اور سروس چارجز کی معطلی کی درخواست کی تھی۔
پی آئی کی جانب سے گراؤنڈ کیے گئے طیاروں پر بحث ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب پی آئی اے کی نجکاری کے لیے حکومتی توقع سے 75 ارب روپے کم بولی لگائے جانے کے بعد یہ معاملہ فیصلے کے لیے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری میں بھیج دیا گیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کھولی گئی جو 10 ارب روپے کی تھی۔ یہ بولی بلیو ورلڈ سٹی کے کنسورشیم کی جانب سے لگائی گئی تھی۔
بولی کے لیے دستاویزات جمع کرانے کی آخری تاریخ گزرنے کے بعد صرف ایک کمپنی ریئل سٹیٹ کنسورشیم بلیو ورلڈ سٹی اس عمل میں آگے بڑھ سکی تھی اور اس کے علاوہ کسی گروپ نے کاغذات جمع نہیں کرائے تھے۔