ایک سینیئر پولیس اہلکار نے جمعے کو بتایا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے علاقے ژوب میں پولیس نے سکول کے ایک کلرک کو گرفتار کر لیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 800 سے زیادہ طلبہ سے جمع کی گئی امتحانی فیس کے تقریباً 23 لاکھ روپے جوئے میں اڑا دیے۔
شہزاد جمال نامی کلرک ژوب، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 335 کلومیٹر دور واقع ہے، کے گورنمنٹ ماڈل ہائی سیکنڈری سکول میں کام کرتے تھے۔ ان کا کام نویں اور 10 ویں جماعت کے طلبہ سے میٹرک کے سالانہ امتحانات کی فیسیں اکٹھی کر کے بینک میں جمع کروانا تھا، لیکن کلرک نے یہ رقم آن لائن جوئے میں ہار دی۔
ژوب کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس صبور آغا نے عرب نیوز کے نمائندے سعد اللہ اختر فون پر بتایا کہ کلرک شہزاد جمال کو منگل کی رات ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ’شہزاد جمال نے پہلے ہی اپنے خاندان کو پشاور منتقل کر دیا اور وہ فرار کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، مگر ہم نے انہیں ژوب میں ہی ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا۔‘
صبور آغا نے بتایا کہ تفتیش کے دوران شہزاد جمال نے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔
سینیئر پولیس اہلکار کے مطابق قبل ازیں شہزاد جمال نے آن لائن جوئے میں تقریباً پانچ لاکھ روپے جیتے تھے، جس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے ایک اور بڑی رقم جیتنے کی امید میں فیس کی رقم داؤ پر لگا دی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکول انتظامیہ کے ساتھ گفتگو سے پتہ چلا کہ شہزاد جمال کئی ہفتے سے امتحانی فیس جمع کر رہے تھے۔
سکول کے پرنسپل وزیر خان نے بتایا: ’کلرک اکتوبر کے آغاز سے طلبہ سے سالانہ امتحان کی فیس وصول کر رہے تھے، انہوں نے یہ رقم اپنے دفتر کے ایک سیف میں رکھی ہوئی تھی لیکن سکول کے اوقات کے بعد انہوں نے ایپ کے ذریعے 23 لاکھ روپے آن لائن جوئے میں لگائے، جہاں انہوں نے یہ ساری رقم گنوا دی۔‘
جب سکول پرنسپل کو اس نقصان کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس کو اطلاع کر دی۔
آن لائن جوئے پر تحقیق کرنے والے راولپنڈی کے تجزیہ کار ذکی خالد کے مطابق ایسے پلیٹ فارمز عالمی مالیاتی نظام کے پردے میں کام کرتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’جوا کروانے والی کمپنیاں روایتی بینکنگ چینلز کو استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں اور صارفین کو موبائل کیش ٹرانسفر ایپس کے ذریعے لین دین کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔‘
ذکی خالد نے مزید بتایا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے آن لائن جوئے میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان کمپنیوں کے بڑے اشتہاری مراکز ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں یوٹیوبرز ایپس کے ذریعے پیسے کمانے کو فروغ بھی دیتے ہیں۔‘
سکول کے 10 ویں جماعت کے 17 سالہ طالب علم عبداللہ خان کو یہ سن کر شدید صدمہ پہنچا کہ ان کی امتحانی فیس جوئے میں ضائع ہو گئی۔
پھلوں کا سٹال لگا کر گزر بسر کرنے والے عبداللہ خان نے بتایا: ’میں نے تعلیم کی خاطر 10 سال محنت کے بعد میٹرک کے امتحان کی فیس کے لیے 2800 روپے جمع کیے تھے۔‘
عبداللہ خان نے بتایا کہ ان کے بہت سے ہم جماعت محدود وسائل والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے دوبارہ امتحانی فیس جمع کروانا مشکل ہے۔
اس واقعے کے رد عمل میں صوبائی تعلیمی حکام نے متاثرہ طلبہ کی مدد کے لیے امتحانی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ 11 نومبر تک بڑھا دی۔
بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین اعجاز بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فارم جمع کروانے کی تاریخ بڑھا دی ہے مگر سکول کو امتحانی فیس لازمی جمع کروانا ہو گی اور کلرک سے یہ رقم واپس وصول کرنا بھی ضروری ہے۔‘