fbpx
خبریں

امریکی انتخابات اور ’سفارتی طور پر زخمی‘ پاکستان پر اس کے اثرات/ اردو ورثہ

آئندہ ہفتے پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پاکستان سمیت وسیع تر خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔

ایک طرف سابق صدر ہیں جبکہ دوسری جانب موجودہ نائب صدر، جو صدر بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد اتفاق سے نامزد ہونے والی امیدوار ہیں۔ اس انتخاب کا نتیجہ ممکنہ طور پر فیصلہ کن ریاستوں جیسے کہ پینسلوینیا، مشی گن، وسکونسن، نارتھ کیرولائنا، جارجیا، نیواڈا، ایریزونا اور مینیسوٹا میں طے ہو گا۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن اور مجموعی طور پر مسلم برادری ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے، جنہیں ’نو وار‘ صدر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، حالاں کہ ان کے کردار کا عدالتوں اور میڈیا میں کافی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے امیگریشن سے متعلق مؤقف کے باوجود، یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی تارکین وطن نے کملا ہیرس کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ کملا ہیرس کی کامیابی بائیڈن دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہوگی اور کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ امریکہ کے زیادہ تر یورپی اور نیٹو اتحادی کملا ہیرس کو ترجیح دیں گے، جبکہ ٹرمپ کو ایک ’ناقابل پیشگوئی‘ یعنی ’وائلڈ کارڈ‘ اور امریکی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا وعدہ کرنے والا سمجھا جا رہا ہے۔

ٹرمپ کا نعرہ ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے‘ دوبارہ لگایا جا رہا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ عالمی قیادت کے کردار کو ترک کر کے اپنی سوسائٹی کو مسیحی، سفید فام اور شہری اقدار کے مطابق تعمیر کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے، جس میں خارجہ پالیسی کو ثانوی حیثیت مل سکتی ہے۔ ایسی تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ دے سکتا ہے۔ اس وقت جب عالمی نظام میں توازن بگڑنے لگا ہے، امریکہ میں تقسیم کا عمل مزید گہرا ہو سکتا ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021  میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان اور ان کے جانشینوں کو نظر انداز کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان امریکی سٹریٹیجک ترجیحات میں شامل نہیں۔

 امریکہ نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی پاکستان کے بارے میں کوئی خاص تبصرہ کرنے سے گریز کیا حالاں کہ پاکستانی تارکین وطن کی طرف سے مسلسل مہم اور امریکی کانگریس کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آ چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اور خاص طور پر قیادت، امریکی صدارتی انتخاب کے نتیجے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو گئے تو شاید امریکہ کا پاکستان کے بارے میں لاتعلقی کا رویہ تبدیل ہو جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کے ممکنہ منظرنامے کو روکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور پاکستان کی طرف سے امریکہ کو انڈیا، چین، افغانستان اور ایران کے سلسلے میں تعاون کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

حکومت نے انڈیا کے ساتھ تجارت بحال کرنے اور بالآخر 2019 سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جانے کے اشارے دیے ہیں۔ افغانستان کے معاملے کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں پاکستان کا کردار اہمیت رکھتا ہے، ایران کے معاملے پر خاص طور پر غزہ اور لبنان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کا موقف اہمیت رکھتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں مظاہروں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ چین کے معاملے پر ابھی تک واضح مؤقف سامنے نہیں آیا لیکن حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان میں چینی مفادات میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور واشنگٹن کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ البتہ ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر پاکستان کے معاشی و سیاسی استحکام اور اپنی علاقائی اہمیت کو بحال کرنے پر ہو گا۔

سلمان بشیر پاکستانی سفارت کار ہیں، جو پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے