اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو اڈیالہ جیل کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ آج سہ پہر تین بجے تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کو عدالت لا کر ان کے وکلا سے ملوائیں۔
آج اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات پر پابندی سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران سٹیٹ کونسل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے امن و امان کی کی صورت حال کی بنیاد پر جیل میں ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پوچھا کہ آیا وکلا کی ملاقاتوں پر بھی پابندی ہے؟
سماعت کے دوران درخواست گزار نے بتایا کہ تین اکتوبر سے وکلا کو عمران خان نے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم اگر جیل چلے جاتے تو کیا ہم سے کوئی سیکورٹی خدشات ہوتے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس سردار کا کہنا تھا کہ اگر حکومتِ پنجاب نے وکلا کی ملاقات روکی ہے تو یہ توہینِ عدالت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی خدشات سے متعلق کئی خط لکھے جاتے ہیں لیکن اگر یہ خط اصلی خدشات پر مبنی نہ ہوں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
انہوں نے کہا جنھوں نے یہ خط لکھے ان سے قرآن پر ہاتھ رکھا کر پوچھوں گا وہ بیان حلفی دیں آیا واقعی یہی پوزیشن تھی؟
انہوں نے اڈیالہ جیل کے سپریٹنڈنٹ کو حکم دیا کہ وہ سکیورٹی کے انتظامات کر کے عمران خان کو عدالت میں لائیں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ انہیں کل عدالت میں طلب کر کے وضاحت مانگیں گے کہ حکم پر عمل کیوں نہیں ہوا۔
انہوں نے جیل سپریٹنڈنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پتہ ہے آپ میرے حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے جیل سپریٹنڈنٹ کو مزید کہا کہ اگر وہ سکیورٹی خدشات کو وجہ بنائیں گے تو انہیں عدالت کو اس سے متعلق مطمئن کرنا ہو گا۔