ملتان کے ایک کاریگر نے شمسی توانائی (سولر انرجی) کی مدد سے چلنے والا سستا اور ماحول دوست رکشہ تیار کر لیا ہے۔
کاریگر الطاف حسین نے اپنے اس کارنامے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے سوچا جب الیکٹرک رکشے اور موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں، تو کیوں نہ ہم رکشہ سولر ہیٹ پر چلائیں تاکہ یہ مفت میں چلتا رہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اس آئیڈیا پر محنت کی اور ضروری سامان چین اور پاکستان سے خریدا۔
’الیکٹرک رکشے پہلے سے موجود ہیں لیکن بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے یہ کافی مہنگے پڑتے ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر سولر پینل لگا دیے جائیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے رکشے پر 585 واٹ کا سولر پینل لگایا اور اس کے ساتھ دو بیٹریاں منسلک کیں، جن کی مدد سے رکشہ 60 کلومیٹر تک چلتا ہے۔
’جب دھوپ نکلتی ہے تو رکشہ براہ راست سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتا ہے اور جب دھوپ نہ ہو تو بیٹری میں سٹور کی گئی توانائی استعمال ہوتی ہے۔‘
سولر رکشہ بنانے میں الطاف حسین کو تقریباً دو ماہ کا عرصہ لگا، جب کہ اس پر مجموعی لاگت تقریباً چار لاکھ روپے آئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ مزید مہنگیے اور معیاری پارٹس استعمال کریں تو اس رکشے کی تیاری پر خرچہ ساڑھے پانچ سے چھ لاکھ روپے تک جا سکتا ہے۔
الطاف حسین نے مزید بتایا کہ ’ہمارے استاد نے ہماری محنت کو سراہا، اور اب لوگ ہم سے الیکٹرک رکشے بنوانے کے لیے آرہے ہیں کیونکہ یہ ماحول دوست اور سستا ہے۔
’یہ رکشہ دھواں پیدا نہیں کرتا، جب کہ اس کی آواز بھی نہیں ہے۔ سواریاں بھی اس کے سفر سے لطف انداز ہوتی ہیں۔‘
الطاف حسین کا کہنا ہے کہ وہ شمسی توانائی سے چلنے والے رکشے کو معاشرے میں عام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔