پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ہفتے کو بتایا کہ سوات میں حال ہی میں غیر ملکی سفارت کاروں پر حملے کے واقعے میں ملوث ’دہشت گرد‘ فوجی آپریشن میں مارا گیا ہے۔
22 ستمبر کو سوات میں سفیروں کے ساتھ سکیورٹی میں شامل پولیس وین پر دھماکہ ہوا تھا، جس میں پولیس کے مطابق ایک اہلکار جان سے گیا اور چار زخمی ہوئے، تاہم 12 ممالک کے تمام سفیر محفوظ رہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق عسکریت پسندی کے واقعات کا ’سرغنہ‘ عطا اللہ عرف مہران علاقے میں ’دہشت گردی‘ کی متعدد سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ غیر ملکی معززین کے قافلے کو لے جانے والی پولیس گاڑی پر دیسی ساختہ بم کے دھماکے کا واقعہ بھی شامل ہے۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں مرکزی ملزم عطا اللہ عرف مہران سمیت دو عسکریت پسند مارے گئے جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاحتی مقام مالم جبہ میں مختلف ممالک کے سفیروں کے سکیورٹی سکواڈ پر حملے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو معلوم ہوا تھا کہ سفیروں کی آمد سے صوبائی حکومت کو لاعلم رکھا گیا تھا۔
یہ سفیر سوات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی دعوت پر سوات گئے تھے، جہاں سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔
سوات پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق ان سفیروں کا تعلق انڈونیشیا، پرتگال، قازقستان، بوسنیا و ہرزیگووینا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویتنام، ایران، روس اور تاجکستان سے تھا۔
اس معاملے پر سوات پولیس کے ضلعی سربراہ (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بات درست ہے کہ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کسی ملک کا سفیر آ رہا ہے، بلکہ اتنا بتایا گیا تھا کہ غیر ملکی وفد ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ہم نے باقاعدہ طور پر اس وفد کو سکیورٹی فراہم کی تھی اور اب بھی دھماکہ ہمارے سکواڈ کی گاڑی پر ہوا ہے، جس میں ہمارا ایک جوان شہید ہوا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ باقاعدہ سکیورٹی کی وجہ سے وفد میں شامل تمام افراد محفوظ رہے اور انہیں باحفاظت اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔