سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جمعے کو کہا کہ آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے کہ عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف بات نہیں ہو سکتی، اس لیے فوج اور عدلیہ کے خلاف تقاریر روکی جائیں گی۔
اپوزیشن اور حکومتی بینچز دونوں کی جانب سے ماضی اور حال دونوں میں تقاریر کے دوران ملک کے اداروں سمیت دیگر موضوعات پر بات کی جاتی رہی ہے۔ لیکن سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے متنازع بیانات سے متعلق ایسا بیان پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آج پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) سے ملاقات کے دوران غیر رسمی گفتگو میں کہا: ’میں ریٹائرڈ عدلیہ کے ممبران کی بات نہیں کر رہا۔ حاضر سروس کی بات کر رہا ہوں کہ اس طرح ان کا نام لے کر بات نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ اور فوج کے خلاف تقاریر نشر نہیں ہوں گی، ہم انہیں کاٹیں گے۔ ہم اپنی ویب سائٹ پر سب سے زیادہ وقت اپوزیشن کو دیتے ہیں لیکن اس طرح کی تقاریر کاٹ دیں گے۔‘
حالیہ دنوں میں پاکستان کی پارلیمان میں مجوزہ آئینی ترامیم پیش کیے جانے سے متعلق معاملہ مسلسل زیر بحث ہے۔ اس آئینی پیکج کو 14 یا 15 ستمبر کو پارلیمان میں پیش کیے جانے کا امکان تھا تاہم مطلوبہ حمایت یعنی آئینی ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر انہیں قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نہیں لایا گیا۔
اس سلسلے میں وزیر دفاع اور سینیئر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے پہلے تو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ان ترامیم کو 15 ستمبر کو پیش کیا جائے گا لیکن 16 ستمبر کو رات گئے پارلیمان سے روانگی کے وقت بتایا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے ہم مطلوبہ نمبر مکمل نہیں کر سکے۔‘
اس بیان کے بعد سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک کہا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم تقریباً 15 روز تک پارلیمان میں نہیں آئیں گی۔
تاہم آج اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ حکومت کی آئینی ترامیم منظور کروانے کی مکمل تیاری تھی جس وجہ سے اجلاس بلایا گیا تھا۔
’یقین دہانی کے بغیر ایسا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ ‘
سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں نے یقین دہانی کروائی ہوگی تب ہی تو حکومت نے اجلاس بلایا ہوگا کہ چلیں ایک آدھی تو ترمیم منظور کروا ہی لیں گے۔ حکومت نے ایسے تو نہیں سب کچھ کیا تھا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آئینی ترامیم سے متعلق ڈرافٹ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آئینی ترامیم سے متعلق ڈرافٹ نہ مجھے دیا گیا اور نہ ہی میں نے مانگا۔ آئینی ترامیم سے متعلق کوئی حتمی ڈرافٹ تھا ہی نہیں، اس سے متعلق عبوری (initial) ڈرافٹ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی آئینی ترامیم منظور کروانے کی مکمل تیاری تھی اسی لیے اجلاس بلایا گیا تھا۔ ’حکومت کی کوشش تھی کہ جن ترامیم پر جماعتیں مان جائیں گی وہ منظور کروا لی جائیں گی، آئینی عدالت پر تو عمران خان کے دستخط بھی ہیں۔‘
سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پارلیمان کی کارروائی میں ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ’کسی (ایجنسی) کے کہنے پر کوئی اجلاس منسوخ نہیں ہوا۔‘
ایاز صادق نے کہا لیکن ماضی میں ایجنسیوں کے کہنے پر میٹنگس (اجلاس) موخر ہوتی رہی ہیں۔ ماضی میں کہا جاتا تھا چیئرمین نیب کو نہیں بلانا اور پھر میٹنگ منسوخ ہو جاتی تھی۔
سپیکر قومی اسمبلی نے حکومت کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بات چیت کی پیشکش کی ہے، جن نکات پر پی ٹی آئی مان جاتی ہے وہ تو منظور کروا لیں۔‘
اس سوال پر کہ ’اراکین کی پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتاری سے متعلق آپ کو علم تھا؟‘ سپیکر نے جواب دیا کہ ’وہ لوگ نہیں چاہتے کہ میں سپیکر کی کرسی پر بیٹھوں۔ میرے دوبارہ سپیکر بننے سے میری پارٹی کے لوگ خوش نہیں ہیں۔ کیا میرے سپیکر بننے سے ہماری پارٹی کے اندر لوگوں کو خوشی ہے؟ انہیں خوشی نہیں ہے۔‘
اس سے قبل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ایاز صادق کو اراکین قومی اسمبلی کو گرفتار کیے جانے سے قبل بتایا گیا تھا۔