بنگلہ دیش کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ انڈیا باہمی تعلقات کے لیے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ’خاموش‘ رہیں۔
بنگلہ دیش کے خارجہ امور کے مشیر توحید حسین نے اس ہفتے عرب نیوز کو اپنے دفتر میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’جب تک وہ انڈیا میں ہیں، یہ باہمی تعلقات کے مفاد میں نہیں کہ وہ وہاں سے وعظ کرتی رہیں۔
’چوں کہ انہیں وہاں پناہ دی گئی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ خاموش رہیں اور ان کے میزبان انہیں خاموش رہنے کے لیے کہیں۔‘
سابق خارجہ سیکریٹری اور سفیر توحید حسین کو گذشتہ ماہ عارضی حکومت کے خارجہ امور کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
عرب نیوز کے مطابق مسلسل 15 سال اقتدار میں رہنے کے بعد، بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو استعفیٰ دے کر ہمسایہ ملک انڈیا میں پناہ لی تھی۔
قبل ازیں طلبہ کی قیادت میں سابق وزیر اعظم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جنہیں روکنے کے لیے پولیس نے کارروائی کی۔ اس احتجاج کے دوران سینکڑوں لوگوں کی جان گئی۔
بعد ازاں پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی اور عارضی حکومت قائم کی گئی جس کی قیادت نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت محمد یونس کر رہے ہیں۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد شیخ حسینہ انڈیا سے سیاسی بیانات دیتی رہیں اور اپنے پارٹی حامیوں کو باضابطہ طور پر کالز دیتی رہیں۔
انہوں نے مظاہروں میں تشدد کی ’تفصیلی تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا تاکہ ’ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جو لوگوں کے قتل اور تخریب کاری کے ذمہ دار ہیں‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکہ ہے۔
شیخ حسینہ نے اپنے 15 سالہ دور حکومت میں انڈیا کے ساتھ قریبی سٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھے۔
حسین نے کہا کہ نئی حکومت بھی نئی دہلی کے ساتھ ’اچھے تعلقات‘ چاہتی ہے۔
انڈیا سے شیخ حسینہ کی وطن واپسی کی درخواست تاکہ وہ اپنے خلاف تشدد کے مقدمے کا سامنا کریں، کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا ایسی درخواست کی جائے گی یا نہیں۔
وحید حسین کا کہنا تھا کہ ’یہ کہیں بڑا مسئلہ ہے لیکن فی الحال مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کے بہترین مفاد میں ہے اور ساتھ ہی ان کے میزبانوں اور ہمارے مفاد میں بھی کہ وہ خاموش رہیں۔‘
76 سالہ شیخ حسینہ دنیا کی طویل ترین حکمرانی کرنے والی خاتون رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
شیخ حسینہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں جو ملک کے بانی رہنما تھے۔ انہیں 1975 میں ہونے والی فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔
اس وقت جب حسینہ کی عمر 28 سال تھی۔ وہ 1996 سے 2001 تک وزیرِ اعظم رہیں اور 2009 میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیش خطے کی تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہو گیا۔ عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں ملک کے ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔
لیکن تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ تیزی سے آمر اور جمہوریت کے لیے خطرہ بن گئیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ حسینہ کی حکومت کا اچانک خاتمہ ان کی حکمرانی کے خلاف وسیع تر عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔
جولائی میں شروع ہونے والے طلبہ کے مظاہرے جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف تھے جس پر تنقید کی گئی یہ کوٹہ سسٹم حکومت کے ساتھ روابط رکھنے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔
بعد ازاں یہ مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔ سول نافرمانی کی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر کے دفتر(او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے واقعات کی تحقیقات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
او ایچ سی ایچ ار کے ابتدائی تجزیے کے مطابق بدامنی اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف کی گئی خلاف ورزیوں سے متعلق دستیاب ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ چھ سو سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔
لیکن ’اموات کی رپورٹ کی گئی تعداد ممکنہ طور پر کم ہے۔‘
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ’ماورائے عدالت قتل، من مانی گرفتاریاں اور حراست، جبری گمشدگیاں، تشدد اور بدسلوکی‘ شامل ہیں۔