انڈونیشیا میں پولیس نے بچے سمگل کرنے والے ایک گروہ کو بے نقاب کیا ہے جس نے فیس بک پر نومولود بچے خرید کر بالی میں غیر ملکیوں کو فروخت کیے۔
پولیس کے مطابق یہ ’منظم‘ گروہ مغربی جاوا کے شہر دیپوک میں سرگرم تھا جو جکارتہ سے تقریباً 27 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کو فیس بک پر والدین سے تقریباً 800 پاؤنڈ میں خریدا گیا اور پھر چار گنا زیادہ قیمت پر غیر ملکیوں کو بالی میں فروخت کر دیا گیا۔ یہ گروہ ’پیشگی آرڈرز‘ بھی لیتا تھا۔
پولیس نے کہا کہ اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن پر انسانی سمگلنگ اور بچوں کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں دو جوڑے، دو ایجنٹ جو بچے تلاش کر کے انہیں خریدتے تھے، ایک مڈل مین اور ایک بروکر شامل ہے جو تمام لین دین کا انتظام کرتا تھا۔
دیپوک پولیس کے سربراہ آریا پردانا کے مطابق بچوں کو فیس بک پر ایک کروڑ سے 15 ڈیڑھ کروڑ انڈونیشین روپے (493 سے 740 پاؤنڈ) میں فروخت کے لیے اشتہار دیا جاتا، اور پھر ان بچوں کو بالی جیسے سیاحتی مقامات پر لے جایا جاتا تھا، جہاں غیر ملکی خریداروں کو یہ بچے ساڑھے چار کروڑ انڈونیشین روپے (2220 پاؤنڈ) تک میں فروخت کر دیے جاتے۔
یہ گروہ اس وقت بے نقاب ہوا جب حکام کو عوام نے اطلاع دی۔ پردانا کا کہنا تھا کہ پولیس دو بچوں، ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی فروخت روکنے میں کامیاب رہی، جنہیں بالی میں فروخت کیا جانا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ بالی میں اب تک پانچ بچوں کو فروخت کر چکا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک خاتون نے شوہر کی جانب سے بچے کی پرورش سے انکار کے بعد اپنا بچہ ایک کروڑ انڈونیشین روپے میں فروخت کر دیا۔
پولیس کو شبہ ہے کہ اس گروہ کی غیر قانونی سرگرمیاں بالی سے باہر تک پھیل چکی ہیں اور اس حوالے سے دیگر علاقوں میں بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔
پردانا کے مطابق: ’اب تک ہم نے جو کچھ دریافت کیا وہ صرف بالی تک محدود ہے لیکن منظم بین الاقوامی جرائم کہیں بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں ملوث مجرم دنیا کے کسی بھی حصے سے ہو سکتے ہیں۔‘
اقوامِ متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق دنیا میں 56 فیصد انسانی سمگلنگ کے شکار افراد ایشیا بحرالکاہل خطے میں ہیں جبکہ جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا انسانی سمگلنگ کے اہم مراکز ہیں۔
انڈونیشیا میں انسانی سمگلنگ کے جرم میں ملوث کسی شخص کو 15 سال تک قید اور 60 کروڑ انڈونیشین روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
بچوں کے تحفظ کے قانون کی خلاف ورزی پر بھی اسی طرح کی زیادہ سے زیادہ سزا دی جا سکتی ہے جس میں 30 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی شامل ہے۔