صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی کی تحصیل میختر میں واقع پہاڑی سلسلے ’غوائی غر‘ میں پچھلے پانچ سال سے مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت فلورائیٹ نکال رہے ہیں۔
پشتو زبان کے لفظ غوائی غر کا مطلب ’بیل کا پہاڑ‘ ہے اور یہاں کے رہائشیوں نے سینکڑوں گہری سرنگیں کھود رکھی ہیں، جن میں نوجوان، بوڑھے اور بچے بھی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
غوائی غر کے پہاڑوں میں فلورائیٹ نکالنے والے یہ کان کن اپنی ہی آبائی زمینوں پر دیہاڑی پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
صوبائی حکومت کے مائنز اینڈ منرلز ڈپارٹمنٹ کے مطابق لورالائی کے پہاڑوں میں زیرِ زمین فلورائیٹ کا تخمینہ 16 لاکھ ٹن سے زیادہ ہے، تاہم صوبے میں ریفائنری نہ ہونے کی وجہ سے یہ فلورائیٹ کراچی شہر منتقل کیا جاتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غوائی غر کی فلورائیٹ کان میں پچھلے آٹھ سال سے کام کرنے والے عبدالرحمٰن توری خیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ روزانہ آٹھ سو روپے دیہاڑی پر نو گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن ٹھیکے دار اور نہ ہی حکومت کی جانب سے انہیں کوئی مدد فراہم کی گئی ہے۔
عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ’ہمیں نہ تو حفاظتی سامان ملا ہے اور نہ ہی کوئی سہولت۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہماری جیکٹوں کو دیکھیں یہ ہم نے خوشی سے نہیں پہنی ہوئیں۔ میرا سر دس جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔ اگر میرا پیٹ دیکھیں تو لگتا ہے جیسے کسی نے چاقو مارا ہو۔ یہ سب خوشحالی کی وجہ سے نہیں بلکہ غربت کی وجہ سے ہے۔ یہ اترے چہروں والے نوجوان ان غاروں میں خوشی سے نہیں ہیں۔‘
اگرچہ فلورائیٹ کی یہ قیمتی کانیں مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں لیکن وسائل اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے ان کانوں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے اور نکالا گیا خام مال کراچی بندرگاہ پر ریفائننگ اور برآمد کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں، فلورائیٹ کی قیمت ایک ٹن کے حساب سے 10 سے 70 ہزار روپے تک ہوتی ہے اور یہاں سے فلورائیٹ کی 20 کے قریب اقسام نکلتی ہیں۔
فلورائیٹ مختلف رنگوں کا حامل ہوتا ہے، جیسے نیلا، سبز، گلابی اور سرمئی۔ اسے دنیا کی رنگین معدنیات میں شمار کیا جاتا ہے، جس کا استعمال لوہے، سٹیل، زیورات اور مختلف کیمیکلز میں ہوتا ہے۔
ایک کان کے مقامی ٹھیکے دار حبیب اللہ نے بتایا کہ 2010 میں شروع ہونے والی فلورائیٹ کی کان کنی میں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں، لیکن انہیں کوئی سہولت یا رعایت نہیں دی گئی۔
حبیب اللہ کے مطابق: ’یہ کام 2010 میں شروع ہوا ہے، لیکن حکومت یا عوام کی طرف سے کوئی سہولت نہیں ہے۔ یہاں نہ تو کارخانہ ہے، نہ مشینیں اور نہ ہی کوئی ایمبولینس یا ہسپتال۔‘
ستمبر 2023 میں حکومت بلوچستان نے صوبے کی معدنیات کے لیے تین ارب روپے کے منصوبوں پر کام شروع کیا، جن میں ضلع لورالائی کی تحصیل میختر میں فلورائیٹ کی نکاسی کا منصوبہ بھی شامل ہے، مگر اس منصوبے میں مقامی سطح پر کوئی ریفائنری شامل نہیں ہے۔