اگست 2021 میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پہلی بار جرمنی نے جمعے کو افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیج دیا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان سٹیفن ہیبشٹرائٹ نے 28 افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ان کے جرائم کی وضاحت نہیں کی۔
ہیبشٹرائٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’جرمنی کے سلامتی کے مفادات، قومی سلامتی کو واضح طور پر خطرے میں ڈالنے والے مجرموں اور افراد کے تحفظ کے دعوے سے کہیں بڑھ کر ہیں۔‘
جرمن چانسلر اولاف شولز نے جمعے کو لائپزگ کے قریب مقامی انتخابی مہم کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے ہم پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ ہم انہیں ملک بدر نہیں کریں گے لیکن ہم ایسا کرنے کے طریقے تلاش کریں گے۔‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ملک بدری کرنے والی وفاقی ریاستوں کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان جرائم میں ریپ، سنگین آتشزنی اور قتل کی وارداتیں شامل ہیں۔
جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فیسر نے اس اقدام کو جرمنی کے لیے سلامتی کا مسئلہ قرار دیا ہے۔
تاہم جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل جولیا ڈوچرو نے افغانوں کی ملک بدری پر تنقید کی ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت انتخابی مہم کے دوران سیاسی دباؤ کے سامنے جھک گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
برلن کے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو دیگر ذرائع سے کام کرنا پڑتا ہے۔
اس بات کا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ جمعے کو کیے جانے والے اقدامات سے جرمنی اور طالبان کے درمیان تعلقات میں بڑے پیمانے پر سرد مہری آئے گی۔
جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے ایکس پر اپنی پوسٹوں میں اخلاقی قوانین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہیبشٹرائٹ کا کہنا ہے کہ ملک بدری کا کام کئی ماہ سے جاری ہے لیکن یہ کارروائی سولنگن قصبے میں چاقو کے جاں لیوا حملے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے جس میں ملوث مشتبہ شخص شامی شہری ہیں جنہوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔
ملزم کو گذشتہ سال بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا لیکن مبینہ طور پر وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئے اور ملک بدری سے بچ گئے۔