برطانیہ میں جمعرات کو لیبر حکومت کے مطابق پاکستان سمیت دیگر ممالک سے آئے غیر قانونی پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے عمل میں ’خاصی تیزی‘ لائی جائے گی۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ایک کانٹریکٹ شائع کیا جس میں کہا گیا کہ ایسے کمرشل پارٹنرز مطلوب ہیں جو غیر قانونی پناہ گزینوں کو ان کے ممالک میں ’واپس لے جا کر دوبارہ ملا دیں۔‘
اس اشتہار میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ تارکین وطن کی برطانیہ سے 11 مختلف ممالک میں واپسی کے لیے ’ملانے میں مددگار فریقین کی نشاندہی کرنے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔
ان ممالک میں پاکستان، نائجیریا، البانیہ، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، گھانا، انڈیا، عراق، جمیکا، ویتنام اور زمبابوے شامل ہیں۔
نوٹس میں کہا گیا کہ کانٹریکٹرز خوراک کے پیکٹس کی فراہمی، گھر کے افراد کو ڈھونڈنے، اور روزگار ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ دیگر کام کریں گے۔
وزیر داخلہ ایویٹ کوپر نے گذشتے ہفتے کہا کہ آنے والے چھ ماہ میں پچھلے پانچ سالوں میں قانونی پناہ حاصل کرنے میں ناکام افراد کی سب سے زیادہ تعداد کو واپس بھیجا جائے گا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی میڈیا کے مطابق منصوبے کا مقصد سال کے آخر تک 14 ہزار لوگوں کو واپس بھیجنا ہے۔
وزارت کے ایک ترجمان نے بیان میں کہا، ’حکومت امیگریشن کے نفاذ میں بڑے اضافے اور واپسی کی سرگرمیاں تیز کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو واپس بھیجا جا سکے جن کا برطانیہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ قوانین کا احترام کیا جائے اور ان کا نفاذ ہو۔‘
نومنتخب برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ انسانی سمگلرز کے ’گروہوں کو تباہ کر دیں گے‘ جو برطانیہ میں غیر قانونی پناہ کے متمنیوں کو چھوٹی کشتیوں پر لاتے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 20 ہزار سے زائد غیر قانونی پناہ گزین فرانس کے راستے چھوٹی کشتیوں میں برطانیہ آگئے ہیں۔
یہ نمبرز پچھلے سال سے ذرا سے زیادہ مگر 2022 سے کم ہیں۔
پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے والے فلاحی اداروں نے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے محفوظ طریقے بنائیں جن سے ان کا پرخطر راستوں سے برطانیہ پہنچنا مشکل ہو۔
گذشتہ ہفتے جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 119,000 افراد جون 2024 کے آخر تک اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کے منتظر تھے۔