جہاں دریائے سندھ نے لوگوں کو مچھلی اور مرغابی کا تحفہ دیا ہے وہیں پر ایک اور ایسا تحفہ بھی دیا ہے جس نے صدیوں پرانی روایت کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے اور اسے دیکھتے ہی بزرگوں کا من للچانے لگتا ہے۔
سندھ ساگر سے ملحقہ میدانی علاقوں میں واقع دریائی کناروں پر خود رو نیم دریائی سبز سرکنڈے نما پودے اگتے ہیں جن کو میانوالی بھکر سمیت جنوبی پنجاب کے علاقوں میں مقامی زبان میں ’کوندر‘ کہتے ہیں۔
ان پر تین دیسی مہینوں ہاڑ، ساون اور بھادو یعنی جولائی، اگست، ستمبر کے دوران پیلے اور ہلکے خاکی رنگ میں سٹہ لگتا ہے جن میں سے نسل در نسل خاص فن کو سنبھالے کاریگر افراد بڑی مشقت سے بور اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اس بور کو گھر لے جاکر خشک کر کے دیسی اور منفرد روایتی طریقے سے چھان کر پاوڈر نکال کر بغیر کسی مصنوعی رنگ اور میٹھے کے آگ پر پکا کر ایک خاص مٹھائی تیار کرتے ہیں۔
اس مٹھائی کو عام زبان میں ’بوری‘کہتے ہیں۔
پنجاب کے ضلع بھکر کے گاؤں دادو کے رہائشی 45 سالہ کاریگر قمر زمان کے مطابق تقسیم سے قبل بوری ہر سال ساون بھادوں کے موسم کی مشہور سوغات چلی آرہی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب شکر پارے برفی اور پتیسہ جیسی مٹھائیوں کا تصور بھی نہ تھا تب یہ ’بُوری‘ مٹھائی کے طور پر استعمال ہوا کرتی تھی۔‘
’اس خاص روائتی مٹھائی میں آج کل کی مٹھائیوں کے برعکس نہ مصنوعی رنگ ڈلتا ہے نہ ہی میٹھا کیونکہ یہ قدرتی میٹھی ہوتی ہے جس کی تیاری کا دورانیہ صرف جولائی، اگست، ستمبر کا ہوتا ہے، پھر یہ ختم ہو جاتا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قمر زمان کے مطابق ابتدا میں کوندر کے یہ پودے خیبر پختونخوا سمیت پنجاب کے دریائی کناروں پر واقع کالاباغ ، چشمہ سے لے کر بھکر تک بہتات میں پائے جاتے تھے لیکن اب دریائی کچہ آباد ہونے سے یہ پودے بہت کم ہونے سے اس کا حصول مشکل اور زیادہ مانگ کے مقابلے میں اس کی رسد انتہائی کم ہوگئی ہے۔
’یہ سوغات ناپید ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی مالیت بھی بڑھ چکی ہے۔ یعنی گزرے زمانوں میں ایک روپیہ فی کلو فروخت ہونے والی یہ مٹھائی اب 1200 سے 1600 روپے فی کلو ملتی ہے اور اس کا استعمال لکی، بنوں سے جنوبی پنجاب کے چند علاقوں تک ہوتا ہے۔
بوری کے شوقین 65 سالہ میانوالی کے امیر عبد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بچپن سے بوری شوق سے کھاتے آرہے ہیں اور وہ اس کی قدرتی رنگت اور ہلکے میٹھے ذائقے کی وجہ سے اسے پسند کرتے ہیں۔