fbpx
خبریں

افغانستان: بدھ مت آثار کے نیچے دفن ’میس عینک‘ تانبے کی کان پر کام کا آغاز/ اردو ورثہ

افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے صوبہ لوگر میں زیر زمین موجود بدھ مذہب کے قدیم آثار کے نیچے دریافت ہونے والی میس عینک تانبے کی کان پر کام کا آغاز کر دیا ہے، جسے ماضی میں افغان حکومتوں نے ’ملک کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ‘ قرار دیا ہے۔

تانبے کی کان کو جانے والی نو کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر کا افتتاح دارالحکومت کابل میں کیا گیا، جس کی تقریب میں طالبان حکومت کے نمائندوں اور چین کے افغانستان میں سفیر بھی موجود تھے۔ 

دنیا میں تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھی جانے والی میس عینک کان میں کھدائی کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق میس عینک کان میں تانبے کے 50 ارب امریکی ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔

افتتاحی تقریب سے خطاب میں افغانستان کے وزارت پیٹرولیم کے نگران وزیر ملا ہدایت اللہ بدری کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت نے اس منصوبے پر کام مکمل نہیں کیا تھا اور خوشی ہے کہ اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’چینی کمپنی افغانستان کے ساتھ 2008 میں طے پانے والے معاہدہ کے تحت اس کان پر کام کرے گی۔‘

آثار قدیمہ کی اہمیت

میس عینک کی کان شاہراہ ریشم کے ساتھ اسی نام کے ایک قدیم بدھ شہر کے مقام پر واقع ہے، جہاں سے ملنے والے ڈھانچوں اور نمونوں کی وجہ سے آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہ یقین کرنے پر مجبور کیا کہ دو ہزار سال پہلے کے زمانے میں رہنے والوں نے یہاں تانبے کی کان کنی کی تھی۔

 تانبے کی کان کے نیچے بدھ مذہب کے تاریخی باقیات کی موجودگی بین الاقوامی ماہرین کے لیے پریشانی کا باعث بنی، جس کے باعث کابل میں ماضی کی حکومتیں اس منصوبے پر کام شروع نہ کر سکیں۔

افغانستان کی تاریخ پر عبور رکھنے والے مصںف ویلیم ڈیلریمپل نے اپنی کتاب William Dylrymple’s return of a king:Battle of Afghanistan 1839-42 میں میس عینک نامی تانبے کی کان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ 

ویلیم لکھتے ہیں کہ ’فرانسیسی جیولوجیکل ماہرین 1963 میں میس عینک نامی گاؤں میں تانبے کے آثار کے لیے سروے کر رہے تھے، جب کھدائی کے دوران تقریباً چھ کلومیٹر زمین سے نیچے بدھ مذہب کا شہر دریافت ہوا۔

’اس کے بعد 70 کی دہائی میں یہاں مزید کھدائی کی گئی اور کئی ٹنلز کھودی گئیں، جن میں سے ایک بعدازاں القاعدہ نے بھی چھپنے کے لیے استعمال کی، جب کہ یہی (میس عینک) گاؤں تنظیم کا ٹریننگ کیمپ بھی رہا۔‘

ویلیم نے مزید لکھا: ’2004 میں فرانسیسی جیولوجیکل ماہرین نے دوبارہ اس جگہ کا دورہ کیا اور مزید آثار قدیمہ دریافت ہوئے، جن میں تانبے سے بنی اشیا بھی شامل تھیں۔ 

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد ماہرین نے بتایا کہ یہ مقام پہلی قبل مسیح سے دسویں صدی تک بدھ مت کا مرکز ہوا کرتا تھا، جب سلک روڈ پر چینی سکالر چین جاتے تھے اور میس عینک چینی راہبوں کی لیے ایک اہم قیام گاہ تھی۔‘

ویلیم نے لکھا ہے کہ اس کے بعد 2008 میں چینی اسی جگہ پر آئے لیکن اس مرتبہ راہب یا سکالر نہیں بلکہ بطور مائنگ ماہرین اور چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن (ایم سی سی گروپ) اور سیانکی کاپر نامی کمپنیوں کے اشتراک سے تین ارب ڈالر پر 30 سال کے لیے یہ جگہ لیز پر حاصل کی۔ 

چینی ماہرین کے مطابق اس مقام پر 100 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا تانبا موجود ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی تانبے کی کان تصور کی جاتی ہے۔

امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے 2008 میں 50 ارب ڈالر مالیت سے زائد کی تانبے کی اس کان کا کنٹریکٹ تو لیا تھا لیکن اس وقت افغانستان کی حکومت کی شرائط ماننا آسان نہیں تھا اور اسی وجہ سے منصوبہ طوالت کا شکار رہا۔

اس رپورٹ کے مطابق منصوبے پر کام کی سست روی کی دوسری بڑی وجہ سکیورٹی تھی، جب کہ شرائط میں چینی کمپنی کا پاکستان اور افغانستان کے طورخم روڈ سے ازبکستان تک ریلوے ٹریک بچھانا شامل تھا۔

افغانستان کے وزارت مائن و پیٹرولیم کے مطابق میس عینک دنیا میں تانبے کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے، جس میں روسی ماہرین نے بھی کھدائی کی تھی لیکن 1989 میں جنگ کے باعث یہاں کام بند کر دیا گیا تھا۔ 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے