حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی میں عائد کیے گئے نئے ٹیکسوں نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے وہیں ان کی وجہ سے ملک بھر میں سرمایہ کاری کے رجحان میں بھی کمی دیکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے ریئل سٹیٹ کا شعبہ خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔
پاکستان میں نافذ پالیسیوں کے برعکس متحدہ عرب امارات، خصوصاً دبئی کی حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو ریئل سٹیٹ کے شعبے کی جانب راغب کرنے کے لیے گذشتہ چند برسوں سے سرمایہ کار دوست پالیسیاں اور نظام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ ان پالیسیوں کی بدولت دنیا بھر خصوصاً پاکستان کے سرمایہ کاروں کا رجحان مملکت میں انویسٹمنٹ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انڈپینڈںٹ اردو نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے رجحان میں گراوٹ اور دبئی میں سرمایہ کاری کے بڑھتے رجحان کے بارے میں ریئل سٹیٹ ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ دنیا میں کہیں بھی محفوظ سرمایہ کاری کے لیے کن عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
زمین ڈاٹ کام کے ڈائریکٹر پراجیکٹ سیلز محمد جنید مغل اس بارے میں کہتے ہیں کہ 2023 سے دبئی میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی ہے، جس کے باعث دبئی کی ریئل سٹیٹ ترقی کر رہی ہے۔ ’اس ترقی میں نہ صرف مقامی افراد کا حصہ ہے بلکہ وہاں غیرملکی سرمایہ کاری کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ دبئی میں کم و بیش 90 ممالک کے شہری رہائش پذیر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دبئی حکومت کے اقدامات خاص کر گولڈن ویزا، زیادہ معیاد کے ویزے، ٹرانزیکشن فیس اور ریگولیٹری فیس جو انہوں نے کم کی ہیں اور خصوصی پالیسیاں، جو ریئل سٹیٹ کو سپورٹ کر رہی ہیں، یہ چیزیں وہاں سرمایہ کاروں کو راغب کر رہی ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ اپنی پالیسیوں کو دیکھے اور سرمایہ کاروں کو پاکستان میں انویسٹمنٹ کی طرف راغب کرنے کے لیے انہیں مزید سہولیات دے۔‘
بین الاقوامی معیار کا طرز زندگی، جیسے کہ معیاری سکولوں اور ہسپتالوں کی کسی علاقے میں موجودگی بھی سرمایہ کاروں کو راغب کرتی ہے کہ وہ دبئی جیسی جگہوں میں سرمایہ کاری کریں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دبئی کا ویزا نظام بھی اس کی پھلتی پھولتی رئیل سٹیٹ مارکیٹ کی دوسری وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ 2019 میں متعارف کروایا گیا گولڈن ویزا ریئل سٹیٹ میں کم از کم 20 لاکھ درہم (سات لاکھ 31 ہزار 485 ڈالر) کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو 10 سال کی رہائش فراہم کرتا ہے۔
دبئی میں پراپرٹی کنسلٹیشن کے شعبے سے منسلک شہزادی نواز نے سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو تجویز دی ہے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری سے ابتدا کریں، یعنی ایک بیڈروم یا سٹوڈیو اپارٹمنٹ خریدیں، جو کم قیمت پر دستیاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دبئی کے سستے علاقوں جیسے جمیرہ ویلج سٹی، دبئی سپورٹس سٹی اور دبئی ساؤتھ میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ یہاں آس پاس ہسپتال، سکول، ریستوران اور سیلون جیسی روزمرہ زندگی کی بنیادی سہولیات موجود ہیں۔ یہ طرز زندگی کی چیزیں ہیں، جو لوگوں کو گھر خریدنے سے پہلے یقینی طور پر دیکھنی چاہییں۔‘
شہزادی نواز کا کہنا تھا کہ پراپرٹی خریدنے سے قبل چند عوامل کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے: ’جیسے کہ قانونی مشورہ حاصل کرنا۔ اس کے علاوہ جائیداد کی قانونی حیثیت چیک کریں اور خود جا کر جائیداد کا معائنہ کریں کہ وہ کیسی ہے۔ رہائش کے قابل ہے یا نہیں اور بنیادی سہولیات موجود ہیں یا نہیں۔‘
محمد جنید مغل کا کہنا ہے کہ دبئی کا لائف سٹائل یورپ کے برابر ہے اور وہاں لوگ سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے دبئی میں 24-2023 میں نہ صرف رئیل سٹیٹ بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھتا ہوا دیکھا گیا ہے۔