پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے بانی چیئرمین عمران خان کو مقدمے کے لیے ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دیے جانے کے خلاف جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
عمران خان کے وکیل عزیز کرامت کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نو مئی 2023 کے مقدمات میں عمران خان کو مقدمے کی سماعت کے لیے فوج کے حوالے کیے جانے کا خدشہ ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک میں سول عدالتیں آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہیں، لہذا عمران خان کے مقدمے کی سماعت فوجی عدالتوں میں کرنے کی بجائے سول عدالتوں میں جاری رکھنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، آئی جی جیل خانہ جات پنجاب، سپرنٹنڈنٹ پولیس، اڈیالہ جیل اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مزید موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی پاکستان کے سابق وزیرِاعظم ہیں، جنہیں اپریل 2022 میں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سب سے زیادہ ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔‘
درخواست کے مطابق: ’انہیں (عمران خان) کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر مقدمات میں ملزم نامزد کیا گیا ہے، نتیجتاً وہ تقریباً ایک سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست کو فی الحال سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنی درحواست میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ کسی شہری کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں نہیں چلایا جا سکتا۔
یہ فیصلہ جواد ایس خواجہ کی ریاست پاکستان کے خلاف درخواست پر سنایا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ شہریوں کا ٹرائل کورٹ مارشل کے ذریعے کیا گیا۔
’اس کیس میں یہ پتہ چلتا ہے کہ 103 ملزمان کو کس طرح حراست میں رکھا گیا تھا جنہیں نو مئی 2023 کے واقعات کے حوالے سے حکام نے تحویل میں لیا تھا۔
’یہ اقدام بھی غیر قانونی تھا جس کے بعدیہ خدشہ ہے کہ فوجی حکام عمران خان کوبھی اپنی تحویل میں لے لیں گے۔‘
گذشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں اور نجی و قومی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات سامنے آئے تھے۔
حکومت نے ان افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔