fbpx
خبریں

بنگلہ دیش: پرتشدد احتجاج میں کمی، ٹیلی مواصلات کی جزوی بحالی/ اردو ورثہ

بنگلہ دیش میں جاری پرتشدد مظاہروں میں کمی آنے کے بعد بدھ کے روز ٹیلی کمیونیکیشن سروسز جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہیں۔

بنگلہ دیش میں جاری سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف جاری احتجاج کے دوران جان سے گئے افراد کی تعداد 150 تک پہنچ گئی ہے۔

اتوار سے ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے کمی واقع ہوئی، جس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 2018 میں ختم کیے گئے سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد کوٹہ بحال کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مختلف شعبوں کے لیے کوٹے کو کم کرکے 7 فیصد کردیا تھا۔

جس کے بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مظاہروں میں کمی آنے کے بعد حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے لگائے جانے والے کرفیو میں بھی نرمی کر دی گئی ہے، حکام نے بتایا کہ بدھ یعنی آج  سات گھنٹے کے لیے پابندیوں میں نرمی کی جائے گی اور دفاتر بھی صبح 11 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک کھلے رہیں گے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس کے بعد دارالحکومت ڈھاکہ میں لوگوں کی معمول کی آمدو رفت بھی دیکھی گئی۔

احتجاج کرنے والے طلبا کی جانب سے حکومت کو مطالبات کی آٹھ نکاتی فہرست کی چار دیگر شرائط کو پورا کرنے کے لیے مزید 48 گھنٹے کا تازہ الٹی میٹم دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس ڈیڈ لائن کے جمعرات کو ختم ہونے کے بعد اگلے لائح کا اعلان کریں گے۔

احتجاج کے کوآرڈینیٹر ناہید اسلام نے کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے چار نکاتی مطالبات کو پورا کرے، جس میں انٹرنیٹ کی بحالی، کیمپس سے پولیس کا انخلا اور یونیورسٹیاں کھولنا (جو ایک ہفتے سے بند ہیں) جیسے مطالبات شامل ہیں۔‘

پرتشدد مظاہروں کی وجہ کیا ہے؟

نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تین کروڑ 20 لاکھ افراد کے ملازمت یا تعلیم سے محروم ہونے پر ملک میں طالب علم غصے کا شکار ہیں اور اسی بنا پر وہ ’مجاہدین آزادی‘ کے خاندانوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ کو ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

وزیراعظم حسینہ واجد کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات پورے نہ کرنے اور ان پر ‘رضاکار’ کا لیبل لگانے کے بعد ان مظاہروں میں شدت آئی تھی۔ لیبل کی اصطلاح 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے