fbpx
خبریں

فیس بک ویڈیو سے متاثر ہو کر زیتون کے تیل کا کاروبار کرنے والے شیر خان/ اردو ورثہ

بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ضلع شیرانی میں ہزاروں ایكڑ پر مشتمل زیتون کے قدرتی جنگلات كو مقامی خاندانوں میں تقسیم كیا گیا ہے، جن میں سے ایک شیر خان کا خاندان بھی شامل ہے۔

شیر خان اور دوسرے قدرتی جنگلات رکھنے والے خاندان دہائیوں سے زیتون کے یہ قیمتی درخت آگ کے لیے بطور ایندھن استعمال کرتے آ رہے تھے۔

تاہم گذشتہ سال شیر خان نے دہائیوں سے چلی آ رہی درخت کاٹنے کی یہ رسم اس وقت توڑ ڈالی، جب انہوں نے فیس بک پر زیتون کے دانوں سے تیل نکالنے کی مشین دیکھ کر خود بھی یہ مشین خریدنے کا فیصلہ کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شیر خان نے بتایا: ’میں ملتان سے یہ زیتون کا تیل نکالنے والی مشین لایا ہوں۔ اس سے میں زیتون کا تیل نکالتا ہوں۔

’جو کوئی بھی ڈیمانڈ کرتا ہے ان کو تیل نکال کر دیتا ہوں۔ ہمارے زیتون کے اپنے جنگلات ہیں۔ یہ کافی بڑا قدرتی زیتون کا جنگل ہے۔ اس درخت کا دانہ یا بیج جسے ہم پشتو میں ’شننے‘ کہتے ہیں، یہ پہلے ہم لا کر جانوروں کو دیتے تھے۔‘

بقول شیر خان: ’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے ایسے اور اتنا قیمتی تیل نکلتا ہے، جس کے اتنے فائدے ہیں۔ سب سے پہلے فیس بک پر دیکھا تو سوچا کہ میں بھی یہ مشین لے آؤں۔ اب ہم ایک لیٹر زیتون کا تیل دو سے تین ہزار روپے تک دیتے ہیں اور دوسرے امپورٹڈ تیل جیسے سپین وغیرہ، آٹھ سے 12 ہزار روپے تک ایک لیٹر ملتا ہے۔‘

شیر خان نے بتایا کہ ’قیمت کے لحاظ سے یہ کافی سستا ہے لیکن فی الحال یہاں لوگوں کو علم نہیں ہے کہ اسے کیسے استعمال کریں، مگر جو ایک دفعہ لے لیتا ہے وہ دوبارہ پھر مانگتا ہے۔ اب لوگ چار پانچ اور 10 لیٹر تک بھی مانگتے ہیں۔ ایک دو لیٹر والے لوگ فی الحال کم ہیں۔ ہمارا بھی کوئی دوسرا مشغلہ نہیں تھا تو سوچا کہ یہ گھر کا کام ہے اور ضرورت پڑنے پر چھوٹے اور بوڑھے بھی کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل، لورالائی، ژوب اور شیرانی میں بھی زیتون کے مصنوعی باغات کے علاوہ ہزاروں سالوں سے قائم قدرتی جنگلات موجود ہیں، جن سے دوسرے کئی فوائد کے علاوہ مقامی آبادی کو زیتون کی مد میں براہ راست منافع پہنچ رہا ہے۔

اپنے کاروبار اور اس سے متعلق رہنمائی حاصل کرنے میں سوشل میڈیا نے شیر خان کی کافی مدد کی ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں شیر خان کہتے ہیں کہ ’فیس بک اور سوشل میڈیا نے ہمیں بہت فائدہ اور حوصلہ دیا ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ ہم آشنا ہوئے۔ اگر فیس بک وغیرہ نہ ہوتا تو 20 سال بعد بھی ہمیں یہ چیزیں معلوم نہ ہوتیں۔

’پہلے لوگ جو درختوں کی کٹائی کرتے تھے، اب لوگ انہیں اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ پہلے درختوں کی کٹائی بہت کرتے تھے اب اس سے آمدنی اور فائدہ پہنچ رہا ہے، ہمارے لوگ جس چیز کا فائدہ ہو، تبھی اس چیز کی قدر کرتے ہیں۔‘

شیر خان آرڈر کے مطابق تیل نکالتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’ہم 15، 20 اور 30 لیٹر تیل نکال لیتے ہیں۔ پہلے اس لیے نہیں نکالتے کیوںکہ تیل جتنا تازہ ہو گا اتنا ہی مفید ہو گا۔ 15 سے 20 دنوں میں یہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’تقریباً 40 کلو زیتون سے پانچ لیٹر تیل نکلتا ہے اور صفائی کے بعد اس میں سے ڈیڑھ لیٹر کچرا نکلتا ہے اور تقریباً ساڑھے تین سے چار لیٹر صاف تیل بچ جاتا ہے۔‘

شیر خان نے بتایا کہ تیل نکالنے والی اس مشین کا کام کا عمل کافی سست رفتار ہے، یعنی ڈھائی سے تین لیٹر تیل دو سے تین گھنٹوں میں نکلتا ہے۔

ماہرین کے مطابق زیتون ایک ماحول دوست درخت ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ کاربن کو استعمال کرنے، ہوا اور ماحول کو صاف کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

دیگر درختوں کے مقابلے میں زیتون کے درختوں کو پانی کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اسے بلوچستان جیسے خشک علاقے میں سب سے موزوں درخت سمجھا جاتا ہے۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے