کور کمانڈرز کانفرنس میں جمعے کو فورم کے شرکا نے آپریشن ’عزم استحکام‘ پر ہونے والی ’بلاجواز تنقید اور مخصوص مفادات کے حصول کے لیے قیاس آرائیوں پر‘ تشویش کا اظہار کیا جبکہ آپریشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا۔
22 جون کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس ہوا تھا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 265ویں کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
اس کانفرنس میں شرکا نے ملکی سلامتی کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ’عزمِ استحکام‘ آپریشن پر مختلف پہلوؤں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس میں ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی خوش حالی کے لیے آپریشن کو ’دہشت گردی اورغیر قانونی سرگرمیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا۔‘
اعلامیے کے مطابق کانفرنس کے شرکا نے ’سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کو ریاستی اداروں کے خلاف سازش قرار دیا۔‘
اجلاس میں کہا گیا کہ ’ریاست مخالف بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے قوم میں نفاق اور مایوسی پھیلانا ہے۔‘
کانفرنس میں شرکا نے کہا کہ افواج پاکستان اور پاکستانی قوم ان سازشوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کے لیے پُرعزم اور متحد ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں ’عزمِ استحکام‘ کو اہم قدم قرار دیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس کے شرکا نے علاقائی سلامتی بالخصوص افغانستان کی صورت حال پر غور اور علاقائی امن و سلامتی کے فروغ کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اورمعاشی ترقی و استحکام کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں کی مکمل تائید کی۔
شرکا نے اظہار خیال کیا کہ ’عسکری قیادت قوم کو درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک رکھتی ہے اور عوام کے تعاون سے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک پائیدار حل کے لیے کوشاں ہے۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ ’پاکستان فوج تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ سے تیار رہی ہے۔‘
آرمی چیف نے پیشہ ورانہ مہارت اور آپریشنل تیاریوں کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔
کشمیر اور فلسطین کے حالات پر ردعمل
اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں شرکا نے کشمیر اور فلسطین کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
ساتھ ہی فورم نے کشمیر اور غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور نسل کشی کی مذمت بھی کی۔
کانفرنس کے شرکا نے امن و استحکام کے لیے شہدا، افواجِ پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
آپریشن عزم استحکام
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ عزم استحکام کا مقصد دہشت گردوں کی باقیات، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ اور ملک میں پر تشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
اس کے بعد سے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ جعمیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے تو اسے مسترد کرتے ہوئے ’آپریشن عدم استحکام‘ کا نام بھی دے دیا۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے آپریشن عزم استحکام کے اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر عمل درآمد کا منصوبہ کابینہ میں پیش ہوگا، پارلیمان میں اس پر بحث ہوگی، ایوان کا اتفاق حاصل کیا جائے گا جس میں حزب اختلاف اور اتحادی جماعتوں کو بحث کا وقت دیا جائے گا اور ان کے سوالات اور تشویش کا جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نئے آپریشن کو ضرب عضب، راہ نجات اور رد الفساد سے نہ ملایا جائے۔ ’ان کی نوعیت مختلف تھی تاہم مقاصد وہی ہیں، ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوئے، یہ بھی انہیں کے خلاف ہوگا۔‘