خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں پولیس نے جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر 15 سال قبل لاپتہ ہونے والے ضلع خیبر کے رہائشی محمد ہارون کا مقدمہ سابق کمانڈنٹ محسود سکاؤٹس اور دیگر کے خلاف درج کر لیا۔
ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے غندی کے ہارون کے والد غلام محمد کی مدعیت میں درج مقدمے کے مطابق لاپتہ ہونے کا واقعہ 11 جولائی، 2009 کو پیش آیا۔
تاہم جمرود پولیس سٹیشن میں درج مقدمے میں واقعے کے حوالے سے مزید تفصیلات موجود نہیں۔
ضلع خیبر کے ضلعی پولیس سربراہ (ڈی پی او)کے سربراہ سلیم عباس کلاچی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی فیصلے کے روشنی میں درج کیا گیا ہے اور ابھی تک اس کیس کے بارے میں مزید تفصیلات موجود نہیں۔
غلام محمد نے اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کا مقدمہ درج کروانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا، جس نے گذشتہ روز مقدمے کی اندراج کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو مغوی کے والد کو 30 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق درخواست گزار نے بتایا کہ ہارون کو 2009 میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرڈر شیٹ کے مطابق جبری گمشدگی کے حوالے سے قائم حکومتی کمیشن برائے جبری گمشدگی نے 2013 میں ہارون کے اہل خانہ کو سالانہ دو لاکھ روپے معاوضہ دینے اور متعلقہ ادارے کو لاپتہ شخص کی مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔
آرڈر شیٹ میں مزید کہا گیا کہ ‘اب درخواست گزار کو دو لاکھ روپے کے برابر رقم حکومت کو دینی ہو گی جس کی قیمت 2009 میں تھی اور اگر یہ معاوضہ دو ہفتوں میں نہیں دیا گیا تو متعلقہ سرکاری افسران کی تنخواہیں بطور ضمانت لی جائیں گی۔’
مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی حکم پر پیش ہوئے، جنھیں ہدایت دی گئی کہ وہ وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور سیکریٹری دفاع سے اس کیس میں کمیشن برائے جبری گمشدگی کے احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
اس کیس کی سماعت یکم اگست، 2024 تک ملتوی کر دی گئی۔