لبنان نے اتوار کو برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ ’حزب اللہ بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہتھیار ذخیرہ‘ کر رہی ہے۔
لبنان کی نیشنل نیوز ایجنسی (این این اے) کے مطابق اتوار کو لبنان کے قائم مقام وزیر برائے تعمیرات اور ٹرانسپورٹ علی حمیہ بیروٹ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی کو مسترد کیا ہے۔
علی حمیہ نے پیر 24 جون کی صبح 10 بجے بیروت کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ’جائزے کے لیے سب کو دعوت دی ہے۔‘
این این اے کے مطابق علی حمیہ نے ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس میں دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کا ملک اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے جس کی تفصیلات جلد جاری کی جائیں گی۔‘
دوسری جانب انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) نے بھی اتوار کو اپنے ایک بیان میں برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں ’ایاٹا کے نامعلوم ذرائع سے منسوب‘ بیان کو غلط قرار دیا ہے۔
نیشنل نیوز ایجنسی کے مطابق ایاٹا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے علم میں آیا ہے کہ برطانیہ کے ٹیلی گراف نے 23 جون کو ’حزب اللہ لبنان کے مرکزی ہوائی اڈے پر میزائل اور دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کر رہی ہے کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں ’آئی اے ٹی اے کے نامعلوم ذرائع‘ سے منسوب ایک اقتباس شامل کیا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’یہ اقتباس سراسر غلط ہے۔ ایاٹا نے بیروت ہوائی اڈے کی صورت حال پر نہ کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کرے گا۔‘
ایاٹا نے مزید کہا ہے کہ ’ہمارا لبنان کی سیاسی یا سلامتی کی صورت حال میں کوئی کردار نہیں ہے اور ہم اس طرح کے معاملات پر کبھی تبصرہ نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے کہا ہے کہ ’ایاٹا نے ٹیلی گراف کو اس غلطی سے آگاہ کیا اور اخبار نے اس مضمون کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے ایاٹا کا نام ہٹا دیا ہے۔‘
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں کیا تھا؟
دی ٹیلی گراف پر اتوار 23 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ملازمین نے مبینہ طور پر خبردار کیا ہے کہ حزب اللہ وہاں بڑی تعداد میں ایرانی ہتھیار، میزائل اور دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کر رہی ہے۔
برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کے مطابق مبینہ طور پر ان ہتھیاروں میں ایرانی ساختہ راکٹ فلک، مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، فتح-110، بیلسٹک میزائل اور ایم-600 میزائل شامل ہیں جو ڈیڑھ سے دو سو میل تک مار کر سکتے ہیں۔
ہوائی اڈے پر جمع کیے جانے والے اسلحے میں لیزر گائیڈڈ ٹینک شکن میزائل اے ٹی۔14 کورنیٹ، بڑی تعداد میں کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل، دھماکہ خیز مواد آر ڈی ایکس شامل ہے۔
ان انکشافات کے بعد ان خدشات میں اضافہ ہوگا کہ شہر کے مرکز سے صرف چار میل کے فاصلے پر واقع رفیق الحریری ہوائی اڈہ ایک بڑا فوجی ہدف بن سکتا ہے۔
ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ ایران سے براہ راست پروازوں کے ذریعے آنے والے پراسرار بڑے بڑے باکس اس بات کی علامت ہیں کہ حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
’جب انہوں (ہتھیاروں) نے ہوائی اڈے سے آنا شروع کیا تو میں اور میرے دوست ڈر گئے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہوائی اڈے پر حملہ یا وہاں ہونے والے دھماکے سے کافی نقصان ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ممکنہ دھماکے کا موازنہ 2020 میں بندرگاہ سے ہونے والے دھماکے سے کیا جس میں بیروت کے مرکزی حصے کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ’بیروت کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ اموات اور نقصان کے پیمانے کا ذکر نہیں۔ جب بھی ہوئی ہوائی اڈے پر بھی کوئی آفت نازل ہو گی۔‘
حزب اللہ پر ماضی میں بھی ہتھیاروں کے ذخیرے کے لیے شہری ہوائی اڈے کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، لیکن اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ اکتوبر میں تنازع شروع ہونے کے بعد سے اس کام میں تیزی آئی ہے۔