خیبر پختونخواہ میں جمرود کے مقام پر جون 1963 میں تعمیر کیے گئے باب خیبر کی بحالی کے حوالے سے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تحصیل جمرود نصیر عباس کا کہنا ہے کہ اسے اس کی اصل شکل میں ہی بحال کیا جائے گا۔
چند ہفتے پہلے باب خیبر کی تزئین کا آغاز کیا گیا تو پتھروں کے بیچ کالے رنگ کا سمینٹ استعمال کیا گیا جس کے بعد سفید باب خیبر پر کالے رنگ کی اینٹ نما لکیریں نمودار ہو گئیں۔
مقامی اکابرین سمیت سوشل میڈیا صارفین بھی اس کام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے باب خیبر کو اپنی اصل حالت میں دوبارہ مرمت کرنے یا ویسے ہی چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
باب خیبر کو برصغیر کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے، جو پشاور کے عین مغرب میں واقع ہے۔ پشاور سے تھوڑی ہی مسافت پر واقع باب خیبر کابل آمد و رفت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ باب خیبر ایک ایسی علامت ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بن چکی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ اور سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ سے مقامی قبائل کا مطالبہ تھا کہ اسے اپنے رنگ اور قدیم طور پر بحال کیا جائے جس کے حوالے سے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نصیر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صوبے بھر میں تاریخی ورثوں پر تزیئن و آرائش کا کام جاری ہے، جس میں باب خیبر بھی شامل ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہماری کوشش ہے کہ اسے اپنی اصل حالت میں ہی مرمت کریں، یہ ہمارا قومی ورثہ ہے اور اس کی شکل بگاڑنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ضلع خیبر کی تحصیل جمرود سے تعلق رکھنے والے ملک صلاح الدین کوکی خیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنی خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’باب خیبر سے محمود غزنوی، شیر شاہ سوری، سکندر اعظم، سب اسی راستے سے گزر چکے ہیں۔
’یہاں صدر، ورزائے خارجہ کے علاوہ غیر ملکی بھی اپنی یادگار تصاویر بناتے ہیں۔ باب خیبر پر جاری تعمیراتی کام سے اس کی ساکھ اور شان کو نقصان پہنچا ہے، محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی اصل شکل اور خوبصورتی کو بگاڑ دیا ہے۔‘
تحصیل جمرود کے ایک صحافی عزت گل آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مقامی مشران نے اس حوالے سے جرگے بھی کیے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسے اصل شکل میں مرمت کیا جائے، جس پر یہاں کی ضلعی انتظامیہ نے کام کو فوری روک دیا ہے اور ان کے موقف سے اتفاق کیا گیا ہے۔‘