پاکستان کے سابق کرکٹ سٹارز اور میڈیا نے الزام عائد کیا ہے کہ آپسی اختلافات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے انتخاب کی وجہ سے پاکستان ٹیم ٹی 20 ورلڈ کپ کے پہلے ہی راؤنڈ میں شرم ناک انداز میں باہر ہو گئی۔
نیویارک میں آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کا امریکہ اور آئرلینڈ کے درمیان جمعے کو ہونے والا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہونے کے بعد 2009 کی چیمپیئن پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان ٹی 20 ورلڈ سے اتنی جلدی باہر ہو گیا ہو۔ پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑا جو پہلی مرتبہ ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہا تھا۔
اس کے بعد پاکستان روائتی حریف انڈیا سے بھی میچ ہار گیا۔ پاکستان نے کینیڈا کے خلاف صرف ایک میچ جیتا۔
انڈیا سے شکست کے بعد ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی کھلاڑیوں کو لگتا ہے کہ اگر انہوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا تو کوچز کو برطرف کر دیا جائے گا اور انہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘
’اب وقت آگیا ہے کہ کوچز کو برقرار رکھا جائے اور پوری ٹیم کو تبدیل کر دیا جائے۔‘
پورے ٹونامنٹ کے دوران ٹیم میں اختلافات کا الزام لگایا گیا اور یہ کہ بعض کھلاڑیوں کو میرٹ کی بجائے پسندوناپسند کی بنیاد پر سکواڈ میں شامل کیا گیا۔
مداحوں اور تجزیہ کاروں نے ورلڈ کپ کے لیے درست کھلاڑیوں کو منتخب نہ کرنے پر ٹیم انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سابق کرکٹر کامران اکمل کا دعویٰ ہے کہ شاداب خان کو کپتان بابر اعظم کے قریب ہونے کی وجہ سے ٹورنامنٹ کے لیے منتخب کیا گیا اور لیگ سپنر اسامہ میر کو چھوڑ دیا گیا جو اس سال پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں۔
کامران اکمل کے بقول: ’جب آپ دوستی کی بنیاد پر کھلاڑی منتخب کریں گے تو آپ کو یہی نتیجہ ملے گا۔ میر کو سکواڈ میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ یہ بڑی ناانصافی تھی۔‘
ٹیم میں کی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات نے ورلڈ کپ سے قبل ٹیم کی کارکردگی کو متاثر کیا۔
پاکستانی ٹیم پہلے آئرلینڈ سے ہاری پھرانگلینڈ کے خلاف دونوں میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریزی اخبار دی نیوز کے مطابق ورلڈ کپ سے قبل کچھ ناقص انتظامی اور سلیکشن سے متعلق فیصلوں کے نتیجے میں ٹیم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی۔
ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 میں پاکستان کرکٹ کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔
یہ دو سال قبل 2022 کے مقابلے میں بڑا زوال ہے جب پاکستان ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچا تھا۔
پاکستانی کرکٹ فین اور یونیورسٹی کے 19 سالہ طالب علم محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ’مجھے بہت برا لگا۔ آئندہ ورلڈ کپ نہیں دیکھوں گا۔ ٹیم سلیکشن تعصب پر مبنی اور دوستی کی بنیاد پر تھی۔‘
ٹیکسی ڈرائیور سلیم نے کہا کہ ٹیم امریکہ سے ہارنے کے بعد ’ختم‘ ہو گئی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اگلے سال چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرے گا۔ اس سے قبل ٹیم اور انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے کہا کہ تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔
انڈیا سے شکست کے بعد مقامی میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ٹیم کو بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں پاکستان کرکٹ ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیم بنانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ قوم کو اس طرح کی مایوس کن کارکردگی کی توقع نہیں۔‘
لیکن ایک سابق کپتان راشد لطیف نے کہا کہ بورڈ اس مسئلے کا حصہ ہے۔ انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’اس سے پہلے کہ ہم الزام کھلاڑیوں کو دیں، پی سی بی اور اس کی گورننگ باڈی کو فارغ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
’یہ وہ لوگ ہیں جو کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے لیکن کیا ایسا ہو گا؟‘