پاکستان کے صدر آصف علی زداری نے جمعے کو کہا ہے کہ ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف پاکستان کا سوچنا ہے۔ انہوں نے یہ بات وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات میں کہی۔
صدر زداری کا یہ بیان کی اس تناظر میں اہمیت رکھتا ہے کہ رواں ہفتے جب قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا تو اس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔
پیپلز پارٹی حکومت کی ہے تو اتحادی جماعت لیکن کابینہ میں شامل نہیں ہے۔ حکومت میں شامل وزرا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
وزیر داخلہ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق صدر سے ملاقات میں ’باہمی دلچسپی کے امور اور ملکی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔‘
بیان کے مطابق صدر زداری نے کہا کہ ’پاکستان کو آگے لے جانا ہے اور اس سلسلے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوری اور آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کو مقدم رکھنا ہے۔‘
وزیر داخلہ نے جمعرات کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی تھی لیکن اس میں کیا سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا یا نہیں اس بارے میں دونوں جانب سے باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن رواں ہفتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں سیاسی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’وزیراعظم نے سیاسی مسائل کے باہمی تعاون سے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کر دی۔‘
پی ٹی آئی کا سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا عندیہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے رواں ہفتے جیل میں جماعت کے بانی عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا: ’عمران خان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دروازے کھولے جائیں۔‘
ان کے بقول عمران خان نے کہا کہ ’جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے سب معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور مذاکرات کے راستے کھولے جائیں۔ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘
بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ’نہ تو کوئی آفر ہے اور نہ ہی ہم کوئی این آر او کر رہے ہیں۔ جہاں تک ڈائیلاگ کی بات ہے تو ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈائیلاگ آگے بڑھنا چاہیے اور بامعنی ہونے چاہیے اور سب اس میں شامل ہوں تاکہ ہم اس میں آگے بڑھیں۔‘
بیرسٹر گوہر نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے بات کرکے مذاکرات کے معاملے کو آگے بڑھائیں گے۔