پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2024-25 کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ پر ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کے کاروباری حلقوں نے ملا جلا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں بھاری ٹیکسوں کی تجاویز کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات پر بھی قابو پانے کی سفارشات کی جاتیں تو یہ ایک بہتر منی بل بن سکتا تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب بدھ کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کیا تھا۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے انڈپینڈنت اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری امید کے برخلاف بجٹ میں 3500 ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، جس کی وجہ سے 40 فیصد تک اضافہ ہوگا۔
افتخار احمد شیخ کے مطابق: ’ایکسپورٹ میں ایک فیصد کے فکسڈ ٹیکس کو ہٹا کر نارمل ٹیکس میں لائے ہیں، جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’یہ بجٹ آئی ایم ایف کے پریشر پر بنایا گیا ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’یہ بجٹ آدھا آئی ایم ایف کا اور آدھا پاکستان کے اشرافیہ کا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس بجٹ میں کچھ مثبت باتیں بھی ہیں، جن میں نان فائلر اور فائلر کا فرق بڑھایا جانا، جس سے لگتا ہے کہ اب ٹیکس کلیکشن بڑھے گی۔
’ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو بیرون ملک سفر سے روکنا، پراپرٹی پر ٹیکس ادا کرنے اور نہ کرنے والوں پر شرائط لگانے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق بجٹ سے مہنگائی کی واضح کمی آئے گی۔
’مگر حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘