خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے لنڈی کوتل میں حکومت کی جانب سے شہریوں کو 24 میں سے محض چند گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس کے باعث ٹیوب ویل نہ چلنے سے شہری پینے کا پانی حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے شاہ فیصل شنواری پشاور میں ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پشاور میں جا کر اچھا ماحول محسوس کرتے ہیں جبکہ لنڈی کوتل میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لنڈی کوتل میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پانی کا بھی سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ’یہاں بڑے ٹیوب ویلوں کا انحصار بجلی پر ہے، جب بجلی ہوتی ہے تو ٹیوب ویل چلتے ہیں، جس سے وہ پانی کے حصول کو ممکن بناتے ہیں لیکن 22 گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اکثر ٹیوب ویل بند پڑے ہیں اور خواتین اور بچے میلوں دور جا کر پہاڑی چشموں سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔‘
فیصل شنواری نے بتایا کہ بیشتر آبادی سولر پینل کا استعمال کرتی ہے، جس سے دن میں بلب اور پنکھے کام کرتے ہیں لیکن رات کو سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول شاہ فیصل شنواری: ’علاقے کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر تلے زندگی گزار رہی ہے۔ سرمایہ دار لوگ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اس خوبصورت خطے کو چھوڑ کر پشاور یا خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں منتقل ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں زندگی گزارنا انہیں پسند ہے کیونکہ یہ پہاڑی، ثقافتی اور تاریخی خطہ ہے لیکن طویل لوڈ شیڈنگ نے یہاں جینا محال کر رکھا ہے۔‘
دوسری جانب قبائلی علاقوں میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ٹیسکو کے ترجمان نثار خان لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ بلوں کو عدم ادائیگی کو قرار دیتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نثار خان نے بتایا کہ ’اگر قبائلی عوام بجلی کے بل ادا کریں تو پھر لازمی بات ہے کہ لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ حکومت قبائلی اضلاع کے لوگوں کی سہولت کے لیے بجلی پر بہت بڑی سبسڈی دیتی ہے لیکن یہ رقم جلد ہی ختم ہو جاتی ہے، اس لیے وفاقی حکومت اور واپڈا کے کہنے پر قبائلی اضلاع میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے، جس سے لوگوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
ٹیسکو آپریشن ترجمان کے مطابق پورے سابق فاٹا میں 411604 فعال صارفین ہیں، جن میں سے گھریلو صارفین کی تعداد 401838 اور کمرشل صارفین 6159 ہیں۔
اسی طرح انڈسٹریز کے صارفین 843، زراعت کے صارفین 260، عام صارفین 2432 اور(بلک) یعنی کارخانوں کے اندر جو بڑے ٹرانسفارمرز نصب ہوتے ہیں، ان کی تعداد 72 ہے۔
قبائلی اضلاع کے لیے بطور ایکسئین گریڈ کام کرنے والے سید اکرام اللہ شاہ نے کہا کہ
’قبائلی اضلاع میں باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک بجلی استعمال کرنے والے 100 میں سے 94 فیصد ڈومیسٹک صارفین ہیں، جو مفت کی بجلی استعمال کر رہے ہیں، یعنی بغیر میٹر کے اور بغیر میٹر کے بجلی کی فراہمی کسی ملک میں ممکن نہیں۔‘
سید اکرام اللہ شاہ نے مزید بتایا کہ ’ٹیسکو ایک تقسیم کار کمپنی ہے اور وہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے بجلی خرید کر قبائلی اضلاع کے صارفین کو مہیا کرتی ہے۔ نیپرا نے بجلی کی جو فی یونٹ قیمت مقرر کی ہے، اسی قیمت پر بجلی خریدی جاتی ہے اور اسے گھریلو صارفین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ گھریلو صارفین نہ بجلی کا بل دے رہے ہیں، نہ ہی ریکوری کا کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی وہ میٹر لگوانے کے لیے راضی ہیں تو جب تک قبائلی اضلاع میں ڈومیسٹک میٹرائزیشن نہیں ہوگی اور لوگ ادائیگی نہیں کریں گے، ٹیسکو کب تک مفت بجلی مہیا کرسکتی ہے کیونکہ انہوں نے بھی ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہماری کمپنی کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگ میٹر لگائیں، لوڈشیڈنگ خود بخود ختم ہوجائے گی۔ بجلی کا مضبوط نظام موجود ہے۔ خیبر میں ہم نے تین فیڈرز لگائے ہیں، اس کے لیے ہم نے ایکسپریس فیڈر لگائے ہیں، جہاں پر لوگوں نے میٹر لگائے ہیں وہاں ہم 24 گھنٹے بجلی دیتے ہیں۔ بجلی موجود ہے سب کے لیے لیکن میٹر لگائیں کیونکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، جو پہلے سے قرضوں میں ڈوبا ہے۔ لہذا لوڈشیڈنگ کا واحد حل میٹر لگانا ہے۔‘