اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک اہم رکن نے اتوار کے روز وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت سے استعفیٰ دے دیا ہے جس کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی رہنما پر داخلی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل کے سابق جنرل اور وزیر دفاع بینی گینٹز نے غزہ کے لیے جنگ کے بعد کے منصوبے کو نتن یاہو کی جانب سے منظور کرانے میں ناکامی کے بعد ہنگامی طور پر ادارے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔
ان کے جانے سے حکومت کا تختہ الٹنے کی توقع نہیں ہے، جو مذہبی اور انتہائی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، لیکن حماس کے خلاف جنگ کے آٹھ ماہ بعد نتن یاہو کے لیے یہ پہلا سیاسی دھچکا ہے۔
استعفے سے قبل میڈیا بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’نتن یاہو ہمیں حقیقی فتح کی طرف بڑھنے سے روک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھاری دل کے ساتھ حکومت چھوڑ رہے ہیں۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم نے چند منٹ کے اندر جواب دیتے ہوئے کہا ’بینی، یہ لڑائی چھوڑنے کا وقت نہیں ہے، یہ فوج میں شامل ہونے کا وقت ہے۔‘
ہفتے کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ سے چار قیدیوں کو بازیاب کرایا تھا۔
اتوار کو 65 برس کے ہونے والے گینٹز کو نتن یاہو کی حکومت گرنے اور قبل از وقت انتخابات کی صورت میں اتحاد بنانے کے لیے پسندیدہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی سینٹرسٹ نیشنل یونین پارٹی نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کی پارلیمان کنیسیٹ کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے ایک بل پیش کیا تھا۔
سابق آرمی چیف، جو جنگی کابینہ میں شامل ہونے سے پہلے نتن یاہو کے اہم حریفوں میں سے ایک تھے، نے بار بار اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تمام قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے اور اسے ’ترجیح‘ بنانے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچے۔
نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد سے ، جس میں متعدد قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے، اسرائیل مزید کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے اور غزہ میں اپنی شدید فوجی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
سیاسی تجزیہ کار میراو زونزین کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے واضح طور پر اسے ترجیح نہیں دی ہے، لہٰذا یہ پہلا بڑا وقفہ تھا جب گینٹز نے اشارہ دیا کہ وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔‘
اگرچہ نتن یاہو کی حکومت کے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، لیکن گینٹز کے جانے سے وہ واحد ’اعتدال پسند عنصر‘ کھو چکے ہیں۔