کسی چھوٹے ملک کی تمام بجلی کی ضرورت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑے سولر پلانٹ کو چین کے نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
شمال مغربی صوبے سنکیانگ کے صحرائی علاقے میں یہ سولر پارک دو لاکھ ایکڑ پر محیط ہے یعنی نیو یارک سٹی جتنا بڑا جس کی سالانہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت چھ ارب کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ ہے۔
پیر کو پانچ گیگا واٹ کے اس سولر پلانٹ کو چین کی نیشنل گرڈ سے منسلک کیا گیا جو لکسمبرگ یا پاپوا نیو گنی کے سائز کے ملک کی بجلی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔
چین نے شمسی توانائی کو اپنانے میں دنیا کی قیادت کی ہے جہاں 2023 میں اس کی ماحول دوست صلاحیت میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ چین میں ہی موجود Ningxia Teneggeli اور Golmud Wutumeiren شمسی منصوبوں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب بڑا شمسی پلانٹ بن گیا۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کی ایک حالیہ رپورٹ میں قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی چین کی مہم کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چین نے گذشتہ سال اتنی شمسی توانائی کی صلاحیت حاصل کی جتنی پوری دنیا نے 2022 میں کی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2028 تک چین دنیا بھر کی قابل تجدید بجلی کا تقریباً 60 فیصد حصہ پیدا کر رہا ہو گا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق: ’قابل تجدید ذرائع کو تین گنا کرنے کے عالمی ہدف تک پہنچنے میں چین کا کردار اہم ہے کیونکہ چین 2030 تک عالمی سطح پر درکار نئی صلاحیت کا نصف سے زیادہ انسٹال کر لے گا۔‘
2023 میں معروف چینی صنعت کار لونگی گرین انرجی ٹیکنالوجی کے تجزیے سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ چین میں چھتوں اور عمارتوں پر سولر پینل لگانے سے چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے تمام گھرانوں کو مشترکہ طور پر بجلی فراہم کرنے کے لیے درکار بجلی پیدا ہو جائے گی۔
چین میں سولر پینلز کی تیاری میں بڑے پیمانے پر اضافے نے حالیہ خدشات کو جنم دیا ہے کہ گنجائش سے زیادہ صلاحیت عالمی منڈی میں پیدا ہونے والی افراتفری کے نتیجے میں تجارتی تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
گذشتہ ماہ چینی تجارتی یلغار کو روکنے کی کوشش میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ چینی سولر کی درآمدات پر ٹیرف 25 فیصد سے دگنا ہو کر 50 فیصد کر دیا جائے گا۔