اسلام آباد ہائی کورٹ نے کراچی ڈاک یارڈ پر 2014 میں ہونے والے حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے پاکستان بحریہ کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
ان سابق نیوی افسران کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے سال 2016 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ’سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کو ایک شہری کے حق زندگی سے کیسے بیلنس کرنا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’لہذا حق زندگی، فیئر ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست کے زیر سماعت ہونے تک ملزمان کو پھانسی نہ دی جائے۔‘
عدالت نے تین ہفتوں تک فریقین، چیف آف نیول سٹاف کا موقف بمع وجوہات سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ’بتایا جائے کہ چیف آف نیول سٹاف کو دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے برخلاف کیوں لگتا ہے؟‘
ان سابق نیوی افسران میں سابق لیفٹیننٹ ارسلان نذیر ستی، سابق لیفٹیننٹ محمد حماد، سابق لیفٹیننٹ حماد احمد خان، سابق لیفٹننٹ عرفان اللہ اور سیلر طاہر رشید شامل ہیں۔
ملزمان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا ہے کہ اس کیس میں ’جرم، ٹرائل اور سزا سے متعلق ریکارڈ انہیں آج تک نہیں ملا۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان بحریہ کے پانچ افسران کو پی این ایس ذوالفقار پر حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر نیول جج ایجوٹینٹ جنرل برانچ میں مقدمہ چلایا گیا اور 2016 میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔
پاکستان بحریہ کے سابق افسران ارسلان نذیر ستی، محمد حماد، محمد طاہر رشید، حماد احمد خان اور عرفان اللہ نے
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے منگل کو نیوی افسران کی درخواست پر تحریری حکم نامے میں کہا کہ ’درخواست گزاران کے مطابق انہیں جنرل کورٹ مارشل میں سزائے موت سنائی گئی، درخواست گزاران کے مطابق انہیں جنرل کورٹ مارشل کے دوران وکیل کی معاونت فراہم نہیں کی گئی۔‘
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار وکیل نے دوران سماعت دلائل میں بتایا کہ ’ملزمان سے شواہد اور کورٹ آف انکوائری کی دستاویزات بھی شیئر نہیں کی گئیں، ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر سزائے موت کے خلاف اپیل فائل کی گئی جو مسترد ہوئی۔
’اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکلا کو دستاویزات تک رسائی کا حکم دیا، جس کے بعد عدالتی حکم پر وکلا کو دستاویزات تک محدود رسائی فراہم کی گئی۔‘
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے مطابق دستاویزات تک رسائی کا اختیار چیف آف نیول سٹاف کے پاس ہے، چیف آف نیول سٹاف سمجھتے ہیں کہ دستاویزات تک رسائی سے ریاست کے مفادات کو خطرہ ہوسکتا ہے۔‘
عدالت نے کیس کی دوبارہ سماعت یکم جولائی 2024 تک ملتوی کر دی ہے۔
نیوی ڈاک یارڈ حملہ
کراچی کے ساحل پر قائم نیوی ڈاک یارڈ پر چھ ستمبر 2014 کو ہونے والے حملے میں نیوی کے اہلکاروں کے درمیان چھ گھنٹے تک فائرنگ کے تبادلے میں نیوی کا ایک اہلکار جان سے گیا جبکہ تین حملہ آور مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ نیوی کے ایک افسر سمیت چھ اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان میں بیان دیا تھا کہ ’کراچی میں نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں نیوی کے اہلکار بھی شامل ہیں جن سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔‘
نیوی ڈاک یارڈ میں نیوی کے جنگی جہازوں اور آبدوزوں کی مرمت کی جاتی ہے۔ اس وقت ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ’حملہ آور پی این ایس ذوالفقار نامی جنگی جہاز کو ہائی جیک کر کے ایندھن بھرنے والے ایک امریکی جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا‘۔