چین کے وزیر دفاع ڈونگ جون نے اتوار کو خبردار کیا ہے کہ ان کی فوج تائیوان کی آزادی کو ’بزور طاقت‘ روکنے کے لیے تیار ہے تاہم انہوں نے امریکہ کے ساتھ بات چیت بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سنگاپور میں ہونے والی سالانہ سکیورٹی کانفرنس میں دیے گئے یہ بیانات دونوں امریکہ اور چین کے دفاعی عہدیداروں کے درمیان ڈیڑھ سال میں پہلی بار براہ راست بات چیت کے بعد سامنے آئے۔
اتوار کو ڈونگ نے شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہمیشہ تبادلہ خیال اور تعاون کے لیے تیار رہے ہیں لیکن اس کے لیے دونوں کو سمجھوتہ کرنا ہو گا۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مزید تبادلہ خیال کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری دونوں افواج کے درمیان اختلافات ہیں۔‘
ڈونگ جون اورامریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے فورم کی میزبانی کرنے والے پرتعیش ہوٹل میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک ملاقات کی۔
اس ڈائیلاگ جس میں دنیا بھر کے دفاعی حکام نے شرکت کی اور حالیہ برسوں میں اسے امریکہ اور چین کے تعلقات کےعکاس کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
ملاقات کے بعد آسٹن نے کہا کہ امریکہ اور چین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ’آنے والے مہینوں میں‘ دوبارہ شروع ہو جائے گی، جبکہ بیجنگ نے دونوں ممالک کے درمیان ’مستحکم‘ سکیورٹی تعلقات کو سراہا۔
اس سال شنگریلا ڈائیلاگ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ایک ہفتہ قبل چین نے خود مختار تائیوان کے ارد گرد فوجی مشقیں کیں ہیں اور تائیوان کے صدر لائی چنگ تی کی حلف برداری کے بعد امریکی حمایت یافتہ جزیرے کو جنگ کے متعلق خبردار کیا ہے۔ بیجنگ نے انہیں ’خطرناک علیحدگی پسند‘ قرار دیا ہے۔
ڈونگ نے اتوار کو فورم سے خطاب میں کہا کہ ’چینی پیپلز لبریشن آرمی ہمیشہ مادر وطن کے اتحاد اور دفاع میں ایک ناقابل تسخیر اور طاقتور قوت رہی ہے۔ یہ تائیوان کی آزادی روکنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ثابت قدمی اور طاقت استعمال کرے گی کہ وہ اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہ ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’جو کوئی تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی جرات کرے گا اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا اور اسے تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور چین جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رابطے بڑھا رہے ہیں، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی گذشتہ ماہ بیجنگ اور شنگھائی کا دورہ کیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان اہم توجہ ملٹری ٹو ملٹری ڈائیلاگ کی بحالی پر مرکوز ہے، جو ممکنہ تنازعات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین نے 2022 میں امریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی سپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے کے ردعمل میں امریکہ کے ساتھ فوجی رابطے ختم کر دیے تھے۔
گذشتہ برسوں میں امریکی فضائی حدود میں مار گرائے مبینہ چینی جاسوس غبارے، تائیوان کی اس وقت کی صدر سائی انگ وین اور پیلوسی کے جانشین کیون میک کارتھی کے درمیان ملاقات اور تائی پے کے لیے امریکی فوجی امداد جیسے معاملات کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
چین ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک بالخصوص فلپائن کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات اور آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں جنگی جہازوں اور لڑاکا طیاروں کی باقاعدگی سے تعیناتی پر بھی برہم ہے۔
بیجنگ سمجھتا ہے کہ یہ اس پر قابو پانے کے لیے دہائیوں سے جاری امریکی کوششوں کا حصہ ہے۔
گذشتہ نومبر میں چینی صدر شی جن پنگ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں فریقین نے تائیوان، جاپان اور بحیرہ جنوبی چین میں فوجی کارروائیوں پر اعلیٰ سطح کے فوجی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔