سنہری گنبد، نیلی اینٹوں اور اسلامی خطاطی سے مزین عمارت مقبوضہ بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کا منظر پیش کرتی ہے لیکن اس کے پس منظر میں سمندر اور ناریل کے درختوں کے جھنڈ پیں۔
دراصل یہ سری لنکا کے ایک ساحلی قصبے کٹن کوڈی کے ایک جدید علاقے میں واقع یہ عمارت مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں موجود گنبد صخرہ کی نقل ہے۔
بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ساتویں صدی میں اس عمارت کو تعمیر کیا گیا تھا، جو مکہ اور مدنیہ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
سری لنکا کے مشرقی صوبے میں بٹیکالوا شہر کے قریب کٹن کوڈی میں تعمیر کی گئی اس تین منزلہ ریپلیکا کا افتتاح دسمبر 2022 میں کیا گیا تھا جو اب سیاحوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
سری لنکا کی دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد مسلمان ہیں لیکن کٹن کوڈی اور اس کے پڑوسی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
یہ عمارت ایک مسجد ہے جس کے نگراں اور محمود علیم محمد حزب اللہ نے کہا کہ یہاں تقریباً دو سے تین ہزار مسلمان جمعے کی نماز ادا کرتے ہیں۔
محمود علیم محمد حزب اللہ، جو مشرقی صوبے کے سابق گورنر ہیں، نے بتایا کہ یہاں سب سے زیادہ سیاحوں کا رش اختتام ہفتہ کو ہوتا ہے اور مسجد کے قریب حلال کھانے اور رہائش نے مقامی کاروبار کو فروغ دیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عطیات سے بننے والی یہ مسجد خطے کے مسلمانوں کے لیے سیاحت کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے جن میں سے اکثر فلسطین میں اصل مسجد اقصیٰ کا دورہ نہیں کر سکتے۔
محمود علیم محمد حزب اللہ نے کولمبو میں گرجا گھروں پر 2019 کے بم دھماکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسٹر حملے کے بعد مسلم کمیونٹی کے لیے سفر کرنا واقعی مشکل ہو گیا تھا۔
اگرچہ ان حملوں کی ذمہ داری داعش کے عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی لیکن اس سے سری لنکن مسلمانوں کے خلاف نفرت اور حملے بڑھ گئے تھے۔ حکومت نے بھی مسلمانوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تاہم کٹن کوڈی میں ایسی کوئی پابندیاں لاگو نہیں ہوئیں جہاں زیادہ تر ادارے اور جائیدادیں مسلمانوں کے زیر انتظام ہیں۔
قریبی شہر کلمونائی کے سابق ڈپٹی میئر عبدالرحمن منصور نے کہا ’یہ مسجد مشرقی صوبے میں ایک سیاحتی مقام بن گیا ہے۔ (یہاں عبادت کرکے) آپ بہت سکون محسوس کرتے ہیں اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ایک مختلف جگہ پر ہیں۔‘
ان کے بقول: ’میرے جیسے لوگ فلسطین نہیں جا سکتے۔ ہمیں موقع نہیں ملتا لیکن یہاں آکر ہمیں اعتماد اور امید ملتی ہے۔‘