آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے منگل کو سینیٹ اجلاس میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف تحریک استحقاق وفاقی وزیر قانون کو جمع کروادی۔
منگل کو ہونے والے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا: ’کہیں توہین ہو تو میرا نام سب سے پہلے آ جاتا ہے۔ میں نے ایک تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں۔ میں نے کسی کی نہ تذلیل کی اور نہ کسی کو پوائنٹ آوٹ کیا۔‘
سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ’پروکسی‘ کہے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ ’جن پر توہین عدالت لگنی چاہیے تھی ان پر نہیں لگی، ہم جج کے کنڈکٹ پر بات نہیں کرتے لیکن آئین اور قانون ججز کے مس کنڈکٹ پر بات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پاکستان میں نشاندہی کرنا، احتساب کرنا بھی جرم ہے تو مجھے بھی پھانسی کی سزا دے دیں۔‘
رواں ماہ 17 مئی کو سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ ’بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے، فیصل واوڈا اور مصطفی کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔‘
اس ضمن میں سپریم کورٹ نے فیصل واڈا اور مصطفی کمال سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر رکھا ہے۔
عدالت نے پیمرا سے ان اراکین پارلیمنٹ کی پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت پانچ جون تک ملتوی کی تھی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر فیصل واوڈا نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جج علی بابر نجفی نے خط لکھا کہ میرے بیٹے نے امریکہ جانا ہے اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا جائے۔ جج اپنے خط پر انصاف نہیں دے پا رہے، اپنی ذمہ داری کے دائرہ کار سے باہر نکل کر یہ کام کر رہے ہیں۔ کیا آپ قربانی کا بکرا رجسٹرار کو بنائیں گے؟‘
تقریر کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا اگر اس خط پر رکن پارلیمان کا نام لکھا ہوتا ’تو ہمیں دو، دو بار سزا دی جاتی۔ ان شواہد کے بعد عدلیہ نے ایکشن کیوں نہیں لیا؟ آپ سے سوال کیا تو توہین، اور آپ سے غلطی ہو تو مسٹیک؟‘
انہوں نے رواں برس سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے خلاف ریفرنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بھٹو کو سزا دینے والے ججز کو تو پھانسی کی سزا دیتے، آمر کو تو پھانسی کی سزا دیتے۔ بھٹو کو پھانسی میں غلطی ہو گئی؟‘
فیصل واوڈا نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر ذکر کرتے ہوئے کہا توہین کیا ہوتی ہے؟ ایک سیاسی جماعت سپریم کورٹ کے باہر جا کر تقریر کرتی ہے، توہین عدالت نہیں ہوتی۔
’ایک جماعت نام لے کر گالیاں دیتی ہے، کوئی ایکشن نہیں لیتا کیونکہ ٹرولنگ ہوگی، میں اصول پر اس جماعت سے نکالا گیا۔‘
اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے فیصل واوڈا کی تقریر پر اعتراض کر دیا۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ’ایگزیکٹو کی عزت پر کوئی سوال کرے گا تو ہم سب ساتھ کھڑے ہوں گے۔
’اطہر من اللہ نے کیسے میری عزت پر سوال اٹھایا؟ ان کی جرات کیسے ہوئی مجھے پروکسی کہنے کی؟ اطہر من اللہ کو شواہد دینا پڑیں گے۔ ان ججز کو ہٹنا پڑے گا۔ جج اطہر من اللہ جانب دار تھے۔ جسٹس محسن کیانی کے جونیئرز ان پر وہ تہمت لگا رہے جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
’ساری عدلیہ ایسی نہیں، آج ججز کو ہٹا دیں۔ میرے لیے وہی قانون ہوگا جو جج کے لیے ہوگا۔ مجھے پروکسی کہہ کر میری عزت نفس مجروح کی گئی۔ وزیر قانون صاحب، اطہر من اللہ کے خلاف تحریک استحقاق کا نوٹس آپ کو دے رہا ہوں۔‘
اس کے بعد سینیٹر فیصل واوڈا نے سینیٹ اجلاس کے دوران ہی جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف تحریک استحقاق وزیر قانون و انصاف اعظم نزیر تارڑ کے حوالے کر دی۔
سینیٹ قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے حالیہ دنوں منظور کیے گئے ہتک عزت سے متعلق قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں ڈریکونین قانون پاس ہوا ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے جو کیا وہ قابل مذمت ہے۔ ججز کچھ کہیں تو پریس کانفرنس شروع ہو جاتی ہے۔‘
اس کے بعد پی ٹی آئی نے ہتک عزت قانون کے خلاف سینیٹ سے واک آوٹ کر دیا۔
بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس بدھ تک ملتوی کر دیا گیا۔