امریکہ کا کہنا ہے کہ روایتی حریف ایران نے صدارتی ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد تحقیقات کے لیے مدد طلب کی تھی تاہم واشنگٹن نے تعزیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ابراہیم رئیسی کے ’ہاتھ خون سے رنگے‘ تھے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران نے اتوار کو ابراہیم رئیسی کا پرانا ہیلی کاپٹر دھند میں گر کر تباہ ہونے کے بعد رابطہ کیا۔ ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے واشنگٹن کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’ایرانی حکومت نے ہم سے مدد طلب کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے کہا کہ ہم مدد کرنے کے لیے تیار ہیں – ہم ایسی صورت حال میں کسی بھی حکومت کے لیے کریں گے۔ آخر کار لاجسٹک وجوہات کی بنا پر ہم یہ امداد فراہم نہیں کر سکے۔‘
انہوں نے تفصیل میں جانے یا یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ دونوں ممالک نے رابطہ کس طرح ہوا۔ تاہم انہوں نے اشارہ دیا کہ ایران ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے کے لیے فوری مدد طلب کر رہا تھا، جس میں ان وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور سات دیگر افراد کی موت ہوئی تھی۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ اور ایران نے مبینہ طور پر عمان میں مذاکرات کیے ہیں جن کا مقصد ایران اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے بعد استحکام بڑھانا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں اموات پر ’سرکاری تعزیت‘ کا اظہار کیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جب ایران نئے صدر کا انتخاب کر رہا ہے تو ہم ایرانی عوام اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے ان کی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔‘
اُدھر امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ ایک ایسے شخص تھے جن کے ہاتھوں پر بہت زیادہ خون تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ رئیسی ’ظالمانہ‘ زیادتیوں کے ذمہ دار تھے۔
تاہم جان کربی کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی دوسرے معاملے کی طرح ہمیں بھی جانی نقصان پر افسوس ہے اور سرکاری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘
امریکہ نے اکثر نہیں تو بعض اوقات اپنے مخالف رہنماؤں کو تعزیت پیش کی ہے، بشمول جوزف سٹالن، کم ال سنگ، اور فیڈل کاسترو۔
لیکن تعزیتی پیغام کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کی جانب سے بھی اسی طرح کے الفاظ سے ایران کے کچھ مخالفین برہم ہوئے ہیں جنہوں نے رئیسی کی موت کو جشن منانے کی وجہ کے طور پر دیکھا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن مسیح علی نژاد، جن کے بارے میں امریکی تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ وہ نیویارک میں تہران کی جانب سے کیے گئے قاتلانہ حملے کا نشانہ تھے، نے ایکس پر لکھا، ’آپ کی تعزیت مظلوموں کے زخموں پر صرف نمک چھڑکتی ہے۔‘
سکیورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اشارہ دیا ہے کہ ایران میں ہونے والے حادثے کے بعد امریکی افواج نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی ہے۔
آسٹن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا علاقائی سلامتی پر کوئی وسیع تر اثر پڑے گا۔‘
انہوں نے کسی بھی امریکی کردار سے انکار کیا اور کہا کہ یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ایک حادثے کے علاوہ کچھ اور تھا۔
لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’اس حادثے میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے، سادہ اور سیدھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کئی چیزیں ہو سکتی ہیں جن میں مکینیکل ناکامی، پائلٹ کی غلطی، آپ اسے جو بھی نام دیں۔‘
ایرانی فوج نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ اس نے ماضی میں اکثر سکیورٹی کے واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر عائد کیا ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا۔
سابق ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس حادثے کا ذمہ دار امریکی پابندیوں کو قرار دیا جس کی وجہ سے ہوا بازی کے پرزوں کی فروخت متاثر ہوئی ہے۔
ظریف کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر میتھیو ملر نے کہا کہ ’آخرکار ایرانی حکومت ہے جو 45 سال پرانے ہیلی کاپٹر کو خراب موسم میں اڑانے کے فیصلے کی ذمہ دار ہے، نہ کہ کوئی اور۔‘