وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اہم ترین مقام ڈی چوک میں رات گئے گاڑی کے ایک حادثے میں دو افراد جان سے چلے گئے۔
پولیس کے مطابق یہ واقعے کل رات تین بجے پیش آیا جب جناح ایونیو میں ایک تیز رفتار گاڑی غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے ایک کیمپ میں گھس گئی۔
حادثہ کے باعث دو افراد جان سے چلے گئے جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔
پیر کی صبح اسلام آباد پولیس نے اس علاقے کو جانے والی تمام سڑکیں بند کر دیں جس سے دفاتر اور سکول جانے والوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد نے بتایا کہ ’ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘ حکام کے مطابق پولیس نے گاڑی میں سوار شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حادثہ کے بعد گاڑی خاردار تار میں پھنس گئی جس کی وجہ سے مزید دو افراد زخمی ہوئے۔ کار ڈرائیور نے گاڑی بعد میں بھگانے کی کوشش بھی کی لیکن تار کے باعث گاڑی رک گئی۔
اس گاڑی کے ڈرائیور نے بعد ازاں پیدل بھاگنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد موقع پر موجود پولیس نے فوری طور پر کار سوار کو حراست میں لے لیا اور گاڑی کو تھانہ کوہسار منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایکسپریس چوک پر فلسطین کے حق میں جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق نے غزہ احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے۔ اس معاملے پر جماعت اسلامی کے ترجمان عامر بلوچ نے بیان جاری کیا اور الزام لگایا کہ ’ڈی چوک دھرنے پہ رات کی تاریکی میں ہونے والا واقعے کے پیچھے منصوبہ بندی ہے۔ کار سوار منصوبہ بندی سے آیا تھا اور اس کا ہدف سابق سینیٹر مشتاق احمد تھے جو اس جان لیوا حملے میں بال بال بچے۔‘
جماعت اسلامی کے مطابق دھرنے کے شرکا پہ گاڑی چڑھانے سے دو افراد جان کھو بیٹھے جبکہ تین زخمی ہوئے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ’کار سوار دندناتے ہوئے آیا دھرنے پہ دو بار چڑھائی کی اور لاشیں بچھا کر چلا گیا۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس نفری محض تماشائی بنی رہی کیونکہ ریڈ زون جیسے حساس علاقے میں اس واقعے کا رونما ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے کار سوار کے حملے کی شفاف تحقیقات کروانے اور حملہ آور کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا۔