امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک انتہائی طاقتور سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ تصور ہے کہ بلیک ہول میں داخل ہونے کا منظر کیا ہو گا۔
امریکی ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کے سائنس دانوں نے یہ سیمولیشن تیار کی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ بلیک ہول کے افق سے باہر کائنات کس طرح نظر آئے گی۔
اس منصوبے کو امریکی خلائی ایجنسی کے ڈسکور سپر کمپیوٹر پر چلانے میں پانچ دن لگے، جس نے تقریباً 10 ٹیرا بائٹس ڈیٹا تیار کیا۔
سیمولیشن تیار کرنے والے ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر فلکیات جیریمی شنٹمین کا کہنا ہے کہ ’لوگ اکثر اس بارے میں پوچھتے ہیں، اور ایسے پراسیس، جن کا تصور کرنا بھی مشکل ہے، کی نقل کرنے سے مجھے آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی ریاضی کو حقیقی کائنات میں حقیقی نتائج سے جوڑنے میں مدد ملتی ہے۔
’لہٰذا میں نے دو مختلف منظر نامے تیار کیے، ایک کیمرا ایک بہادر خلاباز کے متبادل کے طور پر کام کر رہا ہے، جو بلیک ہول کے قریب پوائنٹ آف نو ریٹرن سے بچ کر واپس باہر آ جاتا ہے جبکہ دوسرا جہاں وہ اس حد کو عبور کرتا ہے اور واپس نہیں آتا۔‘
سیمولیشن کے لیے استعمال ہونے والا بلیک ہول ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں واقع بلیک ہول کے برابر ہے، جو سورج سے تقریباً 43 لاکھ گنا بڑا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلیک ہول کے افق کی پیمائش تقریبا ڈھائی کروڑ کلومیٹر (1.6کروڑ میل) ہے جبکہ اس میں داخل ہونے والے کیمرے کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ رہی ہے۔ جب کیمرا ایک ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے جہاں ٹائم اینڈ سپیس فولڈ ہو جاتے ہیں تو بلیک ہول کے ارد گرد نارنجی اور پیلے رنگ کے فوٹون کے دائرے مسخ ہو جاتے ہیں۔
بلیک ہول کے مرکز کے اندر جب کیمرا ون ڈائمنشنل پوائنٹ، جسے سنگولیریٹی کہا جاتا ہے، تک پہنچتا ہے تو اس کا منظر سیاہ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر شنٹمین کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب کیمرا وہ افق عبور کرتا ہے تو (بہت زیادہ کشش ثقل کی وجہ سے) اس کی جسامت سپیگٹی کی ماند ہونے میں صرف 12.8 سیکنڈ رہ جاتے ہیں۔
ناسا کی جانب سے گذشتہ ہفتے ایک الگ ویڈیو شیئر کی جس میں بلیک ہولز کے بہت بڑے سائز کو دکھاتے ہوئے TON 618 نامی بلیک ہول کے سائز کا نظام شمسی سے موازنہ کیا گیا۔