ماڈل ٹاؤن کچہری کی منتقلی کے خلاف احتجاج کے دوران بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور وکلا کے درمیان تصادم کے نتیجے میں متعدد وکلا کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پولیس کو طاقت کا استعمال نہ کرنے اور وکلا کو ہائی کورٹ سے معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے صدر احسن بھون نے پولیس کی جانب سے وکلا پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف جمعرات کو ملک بھر میں ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی وکیل ملک بھر کی عدالتوں میں پیش نہ ہو۔
یہ تصام اس وقت شروع ہوا جب لاہور بار ایسوسی ایشن نے ماڈل ٹاؤن کچہری کی منتقلی کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی، جس پر آج وکلا ایوان عدل سے ریلی کی صورت میں نکلے اور جی پی او چوک کے قریب سے بیریئرز ہٹانے شروع کیے، جس پر لاہور پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں وکلا کو گرفتار کر لیا۔
احتجاج کے باعث ہائی کورٹ چوک اور استنبول چوک سے جی پی او چوک تک ٹریفک کے لیے متبادل راستوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
سٹی ٹریفک پولیس (سی ٹی او) لاہور کے حکم پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کینٹ بھی اضافی نفری کے ہمراہ موقعے پر موجود تھے۔
لاہور پولیس آپریشنز ونگ کے ترجمان نے بتایا کہ پولیس نے ہائی کورٹ کے احاطے کے اندر امن و امان کی صورت حال برقرار رکھی جبکہ وکیلوں کی طرف سے لاہور پولیس پر پتھراؤ اور لاٹھی چارج کیا گیا، جس سے ایس پی ماڈل ٹاؤن، ایس ایچ او اور متعدد جوان زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور پولیس نے وکلا کو منتشر کرنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے کے حوالے سے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈووکیٹ اسد منظور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج لاہور ڈسٹرکٹ بار کی ریلی نے اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت جی پی او چوک، ہائی کورٹ کے باہر آنا تھا اور وہاں ہائی کورٹ بار نے ہمارا استقبال کرنا تھا۔ ہم نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے پر امن احتجاج کرنا تھا کہ سول کورٹس کو ماڈل ٹاؤن کچہری منتقل کرنے کا متنازع نوٹیفکیشن واپس لیا جائے اور وکلا کے خلاف درج 780 اے کے مقدمات نہیں ہونے چاہییں۔ انہی مطالبات کے لیے ہم نے وہاں اکٹھے ہونا تھا۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہمارا احتجاج پر امن تھا لیکن بد قسمتی سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بغیر کسی وجہ کے وہاں لاٹھی چارج شروع کر دیا، آنسو گیس چھوڑی گئی اور وکلا پر واٹر گنز کے ساتھ تشدد کیا گیا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ جب ہمارا احتجاج پر امن تھا تو حکومت کو بھی ہمیں ہمارا جمہوری حق استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔ اگر ہمیں اس طرح روکا جائے گا، تب بھی ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنی پر امن تحریک جاری رکھیں گے۔‘
ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی لیگل کونسل کے صدر اور سپریم کورٹ کے وکیل اشتیاق چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو ہو رہا ہے، نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تمام بڑے وکلا کو بیٹھ کر کوئی حل نکالنا چاہیے تھا۔‘
ایڈوکیٹ اشتیاق چوہدری کے مطابق: ’معاملات سڑکوں کی بجائے بیٹھ کر حل ہونے چاہییں۔ اس صورت حال میں چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ بات چیت کی طرف آئیں اور وکلا کے تحفظات کو حل کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’وکلا کے مسائل تو ہیں کیوں کہ انہیں کیسز کے لیے ماڈل ٹاؤن بھاگنا پڑتا ہے، پھر ہائی کورٹ آنا پڑتا ہے، اسی وجہ سے سڑکوں پر بھی رش ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ہی کمپلیکس میں تمام عدالتیں ہوں تو اس کا وکلا کو فائدہ ہوگا۔‘