امریکہ میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلیو سٹیفرڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں ان کی ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے ہوئی، جنہوں نے عافیہ صدیقی کو 2003 اور 2008 کے درمیان افغانستان میں خفیہ امریکی جیل میں دیکھا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان میں سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر کے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے حوالے کیا تھا۔ تاہم وہ 2003 سے 2008 کے درمیان لاپتہ تھیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2008 سے پہلے عافیہ صدیقی کے بارے میں کسی بھی معلومات رکھنے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔
پاکستان میں امریکی سفیر نے اس حوالے سے 2008 میں عافیہ صدیقی کی قبل گرفتاری سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عافیہ صدیقی سے متعلق الزامات کہ انہیں افغانستان میں بگرام تھیئٹر انٹرنمنٹ فسیلیٹی میں حراست میں رکھا گیا تھا مکمل بے بنیاد ہیں۔
ان کی جانب سے 2008 میں جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’عافیہ صدیقی 17 جولائی 2008 میں افغان پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے قبل امریکی حراست میں نہیں تھیں، نہ افغانستان کی بگرام ایئر بیس میں نہ کہیں اور۔‘
تاہم اب پہلی مرتبہ افغانستان میں کچھ عینی شاہدین سامنے آئے ہیں، جو عافیہ صدیقی کو بگرام میں واقع امریکی خفیہ سیل میں دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے وکیل کلیو کلیفرڈ گذشتہ ہفتے ایسے ہی شواہد کو اکھٹا کرنے کی غرض سے افغانستان گئے تھے اور ان کے ساتھ گوانتنامو بے کے سابق قیدی معظم بیگ بھی تھے۔
کلیو نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں بتایا کہ ہم کئی شاہدین سے ملے، جنہوں نے 2003 سے 2008 کے درمیان عافیہ صدیقی کو بگرام ایئر بیس میں قائم ’بلیک سائٹ‘ میں دیکھا تھا۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے نائن الیون کے بعد افغانستان سمیت مختلف ملکوں میں ’بلیک سائٹس‘ قائم کی تھیں۔ جہاں قیدیوں کو رکھتے تھے۔
کلیو نے بتایا: ’2003 سے 2008 کے درمیان امریکی خفیہ جیل میں عافیہ صدیقی کو شاہدین کی جانب سے دیکھے جانے کے بعد امریکہ کا جھوٹ بے نقاب ہو گیا ہے کہ ان کو اس وقت (2008 سے پہلے) حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہم بگرام ایئر فورس بیس گئے جہاں بلیک سائٹ واقع تھا اور وہاں پر کئی لوگوں نے عافیہ صدیقی کو 2003 اور 2004 میں بھی دیکھا تھا۔‘
کلیو کے مطابق عافیہ صدیقی کو بگرام ایئر بیس سے کابل میں واقع امریکی وومن ٹارچر سیل بھیجا گیا تھا۔
کلیو نے مزید بتایا کہ ایک افغان درزی نے غزنی میں عافیہ صدیقی کی جان بھی بچائی تھی کیونکہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی خاتون کو غزنی میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
عافیہ صدیقی کی گرفتاری
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے 2010 میں عافیہ صدیقی کے عدالتی ٹرائل دیکھنے کے لیے اپنی ٹیم بھیجی تھی اور اس حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں اور 1992 سے جولائی 2002 تک امریکہ میں مقیم تھیں۔
’وہ دسمبر 2002 میں کچھ وقت کے لیے دوبارہ امریکہ گئیں اور جنوری 2003 میں واپس پاکستان لوٹیں۔‘
رپورٹ میں عافیہ صدیقی کے خاندان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ وہ 28 مارچ 2003 کو تین بچوں سمیت لاپتہ ہو گئیں تھیں اور 17 جولائی 2008 کو افغان پولیس نے ان کو افغانستان کے صوبہ غزنی سے گرفتار کیا تھا۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2003 سے جولائی 2008 تک کے عرصے میں عافیہ صدیقی کے حوالے سے کوئی تصدیق شدہ معلومات موجود نہیں ہیں۔
اس کے بعد رپورٹ کے مطابق امریکہ نے بتایا تھا کہ ان کے پاس امریکہ میں موجود تنصیبات پر بائیولوجیکل حملوں کے حوالے سے دستاویزات موجود تھیں۔
تاہم رپورٹ کے مطابق ان پر یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے اور ان کو غزنی میں گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران امریکی سکیورٹی اہلکار سے رائفل چھیننے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
اسی واقعے میں رپورٹ کے مطابق انہیں پیٹ میں زخم آئے، کیونکہ رائفل چھینے جانے کے دوران امریکی اہکار نے گولی چلا دی تھی۔
غزنی میں گرفتاری کے وقت رپورٹ کے مطابق وہ اپنے 11 سالہ بیٹے احمد کے ساتھ تھیں اور بیٹے کو پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔