جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 2024 میں انتخابات کا ’ڈرامہ رچایا گیا اور ہیرا پھیری کر کے‘ ان کی جماعت کو ہرایا گیا جس کے خلاف ’جدوجہد‘ جاری رہے گی۔
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جمعرات کی شام دیر سے مزار قائد کے قریب نیو ایم اے جناح روڈ پر ’عوامی اسمبلی سندھ‘ کے نام سے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا جلسہ منعقد ہوا۔
کراچی میں مجمعے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’یہ سمجھا گیا کہ اب یہ (پارٹی) احتجاج کے قابل بھی نہیں رہے تو وہ آج کراچی میں اس اجتماع کو دیکھ لیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں عام انتخابات دوبارہ کرائے جائیں جو منصفانہ ہوں۔
’اگر عوام نے مجھے منتخب نہیں کیا تو مجھے قبول ہے، مگر عوام کے ووٹ کو جس طرح چوری کیا گیا ہے، وہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور غیر منصفانہ انتخابات کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ’سندھ اسمبلی سے لے کر ایوان صدر کا سودا ہوا، ہم ان کے لیے خطرہ تھے، اس لیے جمعیت کو ہرایا گیا۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق: ’انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے جمعیت علمائے اسلام کو ہرایا گیا۔ مگر آج اس جلسے میں عوام کا جم غفیر دیکھ لیں۔ ملک میں جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا۔ جمہوریت کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ جمہوریت مر چکی ہے۔ جمہوریت کے پیچھے ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔
’حقیقی جمہوریت کے لیے عوام کے اس اجتماع کو تسلیم کرنا ہوگا۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عام انتخابات میں سندھ اسمبلی، ایوان صدر اور دیگر اسمبلیاں ’فروخت‘ کی گئیں۔ دوبارہ الیکشن کرائے جائیں، ورنہ عوامی سمندر میدان میں آنے کے لیے تیار ہے۔
مولانا مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’تحریک بحالی جمہوریت میں تمام جماعتیں شامل تھیں، ہم نے اپنے حق کے لیے کھڑے ہونا ہے، جلسہ عوامی اسمبلی کےعنوان سے ہو رہا ہے، انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلیاں جعلی ہیں، الیکشن میں باقاعدہ اسمبلیاں خریدی گئیں۔‘
جمعیت علمائے اسلام سندھ کی قیادت نے گذشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دو مئی کو کراچی میں جلسے کا اعلان کیا تھا۔ کراچی انتظامیہ نے جی یو آئی ایف کو اس جلسے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ضلع شرقی کی جانب سے امن و امان کی خراب صورت حال پر رپورٹ پر ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی نے اس حواے سے نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ کمشنر کراچی کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیوں کہ حالیہ شدت پسندی کے واقعات کے پیش نظر کسی بھی بڑے عوامی اجتماع کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اجازت نہ ملنے کے باوجود جی یو آئی کی جانب سے جلسہ منعقد کرنے پر ٹریفک پولیس نے جلسے کی جانب آنے والی ٹریفک کو متبادل راستوں پر موڑ دیا۔
جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں مختلف مذہبی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ فلسطین کی آزادی کے بجائے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات یہاں تک کیسے پہنچی ہے۔ امریکہ نے جبر کے ذریعے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولا اور دنیا بھر میں فلسطین کی آزادی کا مذاق اڑایا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان حالات میں جب پاکستان اور افغانستان کی افواج مدمقابل آئی تھیں تو میں نے افغانستان کا دورہ کیا اور معاملے کو ٹھنڈا کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ جیسے قائداعظم کا قول کہ ’کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘ ہماری سوچ کا حصہ ہے اسی طرح اسرائیل کے متعلق قائداعظم کا قول بھی ہماری سوچ کا حصہ ہے اور ہم کس طرح اسرائیل کو تسلیم کرسکتے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن کیے گئے، آج ملک میں دہشت گردی بہت بڑھ گئی ہے۔
سربراہ جے یو آئی پاکستان نے کہا کہ ’ہماری یہ جدوجہد ایک دن یا سال کی نہیں ہے، ہم نہیں ہوں گے تو ہمارے وارث اس کو آگے بڑھائیں گے، آئین کے مطابق کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی، اسمبلیاں ایسے لوگوں سے بھر دی جاتی ہیں جنہیں اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں، ایسے لوگ صرف اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں۔‘