کم از کم ایک ارب سال میں پہلی بار دو جاندار باہم مل کر ایک زندہ جسم بن گئے ہیں۔
یہ عمل، جسے پرائمری اینڈوسمبائیوسس (primary endosymbiosis) کہا جاتا ہے، زمین کی تاریخ میں صرف دو بار ہوا ہے۔ پہلی بار یہ عمل مائٹوکونڈریا کے ذریعے ہوا تھا جس کے نتیجے میں بےحد پیچیدہ حیات وجود میں آئی۔ دوسری بار جب ایسا ہوا تو پودے وجود میں آئے۔
اب سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے سمندر میں عام طور پر پائے جانے والے الجی کی ایک قسم اور بیکٹیریا کے درمیان ہونے والے اس ارتقائی واقعے کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس حقیقت کو سامنے لانے والی دو تازہ تحقیقات میں سے ایک کی قیادت کرنے والے، سانتا کروز کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ٹائلر کول کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جب پہلی بار ایسا ہوا تو اس نے بےحد پیچیدہ حیات کو وجود بخشا۔‘
اس واقعے کی بدولت ’بیکٹیریا کے خلیے سے پیچیدہ ہر چیز کا جنم ہوا۔ تقریباً ایک ارب سال پہلے پودوں کے خلیوں ساتھ دوبارہ ایسا ہوا اور اس (عمل) نے ہمیں پودے دیے۔‘
اس عمل میں ایک الجی نے ایک بیکٹریا کو (زندہ) نگل لیا اور اسے خوراک، توانائی اور تحفظ دیا، جس کے جواب میں اسے ایسے افعال ملے جو وہ پہلے سرانجام نہیں دے سکتا تھا، مثال کے طور پر ہوا سے نائٹروجن کو ’فکس‘ کرنے کی صلاحیت۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد الجی نے بیکٹیریا کو اپنے ایک اندرونی عضو کے طور پر اپنا لیا، جسے آرگینل (organelle) کہا جاتا ہے۔ یہ عضو میزبان کی کام کرنے کی صلاحیت کے لیے اہم بن جاتا ہے۔
یہ حقائق دریافت کرنے والے امریکہ اور جاپان کے محققین کا کہنا ہے کہ اس سے ارتقا کے عمل کے بارے میں نئی بصیرت ملے گی جب کہ اس میں زراعت کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر کول کا کہنا ہے کہ ’یہ نظام نائٹروجن کے استعمال کے حوالے سے نیا تناظر ہے اور اس سے اس بات کے اشارے مل سکتے ہیں کہ آرگینل کو فصلوں میں کس منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘
تحقیق کی تفصیلات پر مبنی مقالے سائنسی جریدے سائنس اینڈ سیل میں شائع ہوئے ہیں۔
ان سائنس دانوں کا تعلق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)، یونیورسٹی آف روڈ آئی لینڈ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو، یوسی سانتا کروز، لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری، بارسلونا کے انسٹی ٹیوٹ ڈی سیئنس ڈیل مار، نیشنل تائیوان اوشن یونیورسٹی اور جاپان کی کوچی یونیورسٹی سے ہے۔