افغان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر بدھ کو غیر معمولی طور پر عوام کے سامنے آئے، جنہوں نے عید الفطر کی نماز میں ہزاروں نمازیوں کی امامت کی تاہم اس موقع پر ذرائع ابلاغ کو تصاویر بنانے کی ممانعت تھی۔
ہبت اللہ اخوندزادہ 2016 میں طالبان کی قیادت سنبھالنے اور 2021 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد تحریک کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے بعد سے اب تک صرف چند ایک بار ہی عوام میں نظر آئے ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ قندھار کی سب سے بڑی مسجد میں نماز ’سپریم لیڈر کی امامت میں ادا کی گئی۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ طالبان تحریک کی جائے پیدائش سمجھے جانے والے جنوبی صوبے میں صبح سویرے ہونے والی اس عبادت میں ’ہزاروں ہم وطنوں نے شرکت کی۔‘
اخوندزادہ کی صرف ایک ہی تصویر ہے۔ عام طور پر پریس کو ان کی عوامی مصروفیات میں شرکت سے روک دیا جاتا ہے اور افغان شرکا کو اپنے فون پر تصاویر لینے یا ریکارڈنگ کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل وہ 2022 میں عید الفطر کے موقع پر قندھار میں عوام کے سامنے آئے اور ایک تقریر کی جس میں انہوں نے افغانوں کو ’فتح، آزادی اور کامیابی‘ پر مبارکباد دی تھی۔
لمبی داڑھی کے حامل طالبان کے امیر قندھار سے فتوے کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، اور غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسلام کے تصور کو نافذ کرنے کے لیے متعدد احکامات جاری کر چکے ہیں۔
کابل کی وزارت مذہبی امور نے منگل کو ہدایات جاری کی ہیں کہ افغانستان کے امام رمضان کے مقدس مہینے میں اخوندزادہ کی طرف سے شائع کردہ پیغام بلند آواز سے پڑھیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں اخوندزادہ نے افغانوں پر زور دیا کہ وہ شرعی قوانین کا احترام کریں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ناانصافی اور شریعت کی مخالفت عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں طالبان حکومت میں تیسری عیدالفطر کی تقریبات سخت سکیورٹی میں منائی گئیں۔
صبح کی نماز شروع ہوتے ہی مساجد کے ارد گرد اضافی چیک پوائنٹس قائم کیے گئے تھے، پولیس اور طالبان حکومت کی سکیورٹی فورسز تعینات کردی گئی تھیں اور موبائل فون سگنلز میں خلل پڑا تھا۔
سکیورٹی فورسز نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافیوں کو کابل میں متعدد مقامات پر ریکارڈنگ سے روک دیا۔
اس کے باوجود نمازی ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے اور سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ مساجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھیں۔